آصف علی زرداری سے ملاقات
تحریر: محمد لقمان
حیدر آباد سے کراچی میں واپس پہنچے تو ہوٹل میں پہنچتے ہی عرفان کھوکھر نے بتایا کہ آج پیپلز پارٹی کے مرکزی رہنما اور بے نظیر بھٹو کے شوہر آصف علی زرداری سے ملاقات طے ہے۔ یہ غالباً پانچ جنوری دو ہزار پانچ کی بات ہے۔ ابھی آصف علی زرداری کئی سال جیل کاٹ کر واپس گھر آئے تھے۔ بہر حال عرفان کھوکھر کی قیادت میں کراچی کے علاقے کلفٹن میں واقع آصف علی زرداری کے گھر پہنچے۔ وہاں پہلے سے ہی پیپلزپارٹی کے میڈیا مینجرز لاہور کے صحافیوں کے استقبال کے لئے موجود تھے۔ بینظیر بھٹو کی قریبی ساتھی ناہید خان ، ان کے شوہر صفدر عباسی ، رخسانہ بنگش اور دیگر جیالوں سے ملاقات کا موقع ملا۔ سب صحافیوں کا تعارف کروایا گیا۔ جب میرے اور شکیل ملک کے بارے میں انہیں پتہ چلا کہ یہ سرکاری میڈیا سے ہیں۔ تو ناہید خان کے چہرے کا جیسے رنگ بدل سا گیا۔ ان دنوں جنرل مشرف کا دور تھا اور پیپلزپارٹی عتاب میں تھی۔ تاہم اس معاملے کو صفدر عباسی نے بخوبی سنبھال لیا اور کہا کہ اے پی پی اور پی ٹی وی بھی تو ہمارے اپنے ادارے ہیں۔ جب ہماری حکومت آئے گی تو یہ لوگ ہماری ہی بات کریں گے۔ یوں صفدر عباسی نے معاملے کو سمجھ داری سے سنبھال لیا۔ ہمیں ایک کمرے میں بٹھا دیا گیا ۔ تھوڑی دیر کے بعد زرداری کمرے میں داخل ہوئے۔ جیل میں طویل عرصہ رہنے کے بعد ان کی صحت کافی گری ہوئی تھی۔ مجھے ابھی تک یاد ہے کہ کمر جھکائے واکنگ اسٹک کے ساتھ چل رہے تھے۔ انہوں نے سب کو پنجابی زبان میں خوش آمدید کہا۔ ان کا فقرہ تھا۔۔۔کہ میرے بھرا لاہور تو ں آئے نیں۔ تہانوں سب نوں جی آیاں۔ انہوں نے سب سے ہاتھ ملایا ۔ پرانی شناسائی والے لوگوں سے گلے بھی ملے۔ بات چیت شروع ہوئی تو کہنے لگے کہ جیل میں بہت تشدد ہوا ہے۔ اس لیے آسانی سے چل نہیں سکتا۔ ملکی سیاست پر مختلف لوگوں سے رائے لینے کے بعد کہنے لگے کہ ابھی تو فوجی حکومت کافی دیر تک رہے گی۔ سیاسی جماعتوں میں نا اتفاقی کی بات ہوئی۔ وہ بی بی کے بارے میں بھی بات کرتے رہے جو کہ ان دنوں ملک سے باہر قیام پذیر تھیں۔ گھنٹہ ڈیڑھ گھنٹہ زرداری صاحب کے ساتھ گذارنے کے بعد ہم واپس ہوٹل آگئے۔ مزے کی بات یہ ہے کہ کچھ دن بعد آصف علی زرداری علاج کے لئے پاکستان سے دبئی روانہ ہوگئے ۔ بعد میں جب دبنی کے اخبارات میں آصف علی زرداری کی تصویریں دیکھنے کو ملیں تو وہ وہاں پیپلزپارٹی کے رہنماوں کے اجلاس کی صدارت کر رہے تھے۔ ان کی کمر کا خم ختم ہوگیا تھا اور واکنگ اسٹنگ کے بغیر چلنا شروع ہوگیئے تھے۔ بیماری کو سہارا بنانا ہمارے سیاست دانوں کی پرانی عادت ہے۔ قصہ مختصر ہوٹل میں آنے کے بعد پتہ چلا کہ شام کو کراچی کے پی سی ہوٹل میں ایل پی جی ایسوسی ایشن کے سربراہ عبدالہادی خان نے ایک ڈنر کا انتظام کیا ہوا ہے۔ توانائی کے شعبے میں بڑے ناموں سے ملنے کا یہ پہلا اتفاق تھا۔ کھانا تو مزے کا تھا مگر ہادی خان کی باتیں بھی بڑی دلچسپ تھیں وہ ایل پی جی کے بارے میں حکومتی پالیسیوں پر تنقید کرتے رہے۔ مزے کی بات یہ ہے کہ اس واقعہ کو تقریباً دو دہائیاں گذر گئی ہیں مگر توانائی کے شعبے کے وہی مسایئل ہیں اور ابھی تک ان کا کوئی حل بھی نہیں ملا۔ اگلی صبح کراچی اور اندرون سندھ کے دورے کے بعد جب لاہور واپس آئے تو ہمارے پاس توانائی کے شعبے کے بارے میں رپورٹ کرنے کے لئے کافی کچھ تھا۔
م