خار زار صحافت۔۔۔۔قسط ایک سو چوالیس

0
181


لعل شہباز قلندر
تحریر: محمد لقمان
جام شور و جوایئنٹ وینچر لمیٹڈ کے ایل پی جی پلانٹ کا دورہ تما انرجی رپورٹر ز کے لئے بہت مفید ثابت ہوا۔ اب وہ صرف ایل پی جی کی قیمت میں اتار چڑھاو کو ہی رپورٹ کرنے کے اہل تھے بلکہ ان کو یہ بھی پتا تھا کہ اس کی تیاری کیسے ہوتی ہے۔۔ پہلی مرتبہ پتہ چلا کہ پیٹرولیم مایئع گیس کی تیاری پیٹرولیم ریفایئنریوں کے علاوہ قدرتی گیس سے بھی ہوسکتی ہے۔۔ ایل پی جی ساز فیکٹریوں میں قدرتی گیس کو گرم پانی اس طرح گذارا جاتا ہے کہ پروپین اور بیوٹین گیسیں الگ ہو جاتی ہیں۔ یہی گیسیں اصل میں ایل پی جی کا جزو ہیں۔ جے جے وی ایل پلانٹس پر موجود کیمیکل اور پیٹروکیمیکل انجیینرز نے بتایا کہ ایل پی جی کی تیاری میں قدرتی گیس کا صرف سات فی صد استعمال ہوتا ہے۔ باقی گیس دوبارہ سسٹم میں چلی جاتی ہے۔ شام کو واپس انڈس ہوٹل حیدر آباد آئے تو گروپ میں شامل چند افراد کی تجویز تھی کہ اب اندرون سندھ آئے ہیں تو کیوں نے سہون شریف میں لال شہباز قلندر کے مزار پر جایا جائے۔ ٹور کے کوآرڈینٹر عرفان کھوکھر نے اس تجویز کو مانتے ہوئے ٹرانسپورٹ کا انتظام کیا۔ ہوٹل سے نکلتے نکلتے رات کے گیارہ بچ چکے تھے۔ حیدر آباد کا سہون تک کا راستہ انڈس ہائی وے کے ذریعے پچھتر کلومیٹرز کے قریب بنتا ہے۔ جنوری کے مہینے میں ٹھنڈ بھی کافی تھی۔ بہر حال اب جانا ہی تھا تو جانے کے بعد چارہ بھی نہیں تھا۔ رات کے وقت ہماری کوسٹر سندھ پولیس کی دو گاڑیوں کے جلو میں جب انڈس ھائی وے پر آدھی رات کو آئی تو ایک خوف دامنگیر ہوا کہ جتنی پولیس سیکیوٹی تھی ۔ اس سے کوئی بھی اندازہ لگا سکتا ہے کہ اہم لوگوں کا گروپ جارہا ہے۔ ان دنوں اندرون سندھ اغوا کا رجحان بھی بہت زیادہ تھا۔ ڈاکووں کا کوئی گروپ ہم غریب صحافیوں کو ہائی ویلیو ٹارگیٹ کے طور پر بھی لے سکتا تھا۔ اغوا کے بعد بھلے سے انہیں ہم سے پھوٹی کوڑی بھی نہ ملتی۔ تقریباً ایک بجے نصب شب کو سیہون میں داخل ہوئے۔ ہر طرف ویرانی تھی۔ لعل شہباز قلندر کے مزار میں بھی اس وقت بہت کم زائرین تھے حضرت لعل شہباز قلندر جن کا اصل نام عثمان مروندی تھا ،بارھویں صدی کے صوفی بزرگ تھے۔ وہ افغانستان کے علاقے مروند سے سندھ آئے تھے۔ اور ان کا انتقال تقریبا ً سو سال کے قریب عمر میں ہوا۔ ان کے دربار میں جھنڈے بھی سرخ رنگ کے ہی لگے ہوئے تھے۔ سب نے وہاں مزار پر دعا مانگی اور تقریباً ایک گھنٹے کے بعد وہاں سے چل پڑے۔ دو ڈھائی گھنٹے کے بعد واپس حیدر آباد میں اپنے ہوٹل پہنچ گئے۔ صبح کے تقریباً چار بج چکے تھے۔ کراچی واپس روانہ ہونا تھا۔ اس لیے سب لوگ واپس آنے کے بعد چند گھنٹوں کے آرام کے لئے اپنے کمروں میں چلے گئے۔ اندرون سندھ کے اس دورے میں ہم نے جام شورو اور دادو اضلاع کے تو کچھ علاقے دیکھے مگر حیدر آباد شہر کی سیر نہیں کرسکے۔ ایک خواہش تھی کہ حیدر آباد میں کانچ کی چوڑیاں بنانے کی فیکٹریاں دیکھوں ۔ سندھ کے اس دوسرے بڑے شہر کے بازار دیکھیں۔ مگر سب لوگ انڈس ہوٹل تک ہی محدود رہے۔ اتفاق کی بات ہے کہ دو ہزار پانچ کے بعد میں درجنوں مرتبہ کراچی اور سندھ کے دیگر اضلاع میں گیا ہوں مگر حیدر آباد نہیں جا سکا۔

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here