خار زار صحافت۔۔۔قسط ایک سو چھیالیس

0
131


نئی راہوں کی تلاش
تحریر: محمد لقمان
زمیں جنبد نہ جند گل محمد کے مصداق میں نے نوکری بدلنے کی بہت کم کوشش کی ہے۔ جو روزگار مل گیا صبر شکر سے کر لیا۔ اے پی پی میں انیس سو نوے میں ملازمت کا آغاز ہوا تو تنخواہ میں بہت سست روی سے اضافہ ہوا۔ جب دو ہزار دو میں الیکٹرونک میڈیا آیا تو صحافیوں کے لیئے نئی راہیں کھلنے لگیں۔ مگر مجھ سمیت اکثر صحافیوں نے نئے نظام کا حصہ بننے میں کافی تاخیر سے کام لیا۔ شروع میں جنگ اور دی نیوز کے صحافیوں کے پاس ہی الیکٹرونک میڈیا میں جانے کی سہولت تھی۔ کیونکہ جیو ٹی وی جنگ گروپ کا تھا۔ باقی لوگ جو انڈس یا دیگر چینلز میں گئے ۔ ان کے لئے یہ کوئی اچھا انتخاب نہیں تھا۔ مگر الیکٹرونک میڈیا کے کسی بھی چینل میں جانے والوں کو شروع میں مشکل آئی مگر بعد میں جیک پاٹ لگ گیا ۔ ان دنوں رسک لینے والے بہت سارے لوگ اس وقت ڈایئریکٹر نیوز اور پتہ نہیں کیا کیا بنے ہوئے ہیں۔ جوئے کا بھی پہلا اصول ہے کہ جو لگائے گا اسے ہی ملے گا۔یہی وجہ ہے آج کل بہت سارے لاکھوں روپے مہینے کمانے والوں کی اس وقت اخبارات میں تنخواہیں دو یا تین ہزار روپے سے زایئد نہیں تھیں۔ قصہ مختصر کہ جوں جوں بچے بڑے ہویئے وسائل کم محسوس ہونے لگے۔ شروع میں کنسلٹنسی ڈھونڈنا شروع کی۔ ہمارے قریبی دوست لیاقت علی گوہر جو کہ ان دنوں سمیڈا کے پی آر او تھے کی مدد سے اقوام متحدہ کے ادارے یو این ڈی پی کے معاونت سے چلنے والے وزارت صنعت و پیداوار کے ایک ذیلی ادارے انڈسٹریل انفرمیشن نیٹ ورک کی ویب سائیٹ کے مواد کی ایڈیٹنگ کا کام مل گیا۔ لیاقت علی گوہر نے میری ملاقات اس ویب سائیٹ کی کانٹینٹ مینجر روما پارا سے ملاقات کروائی۔ بہت نفیس خاتون تھیں۔ میرا خیال ہے آج کل وہ پاکستان سے باہر ہیں۔ روما پارا نے مجھے ایک ایگریمنٹ پر دستخط کرنے کو کہا ۔ یوں میں نے انگریزی زبان کے مواد کی ایڈیٹنگ شروع کردی۔ مجھے ویب سایئٹ پر موجود مواد میں تبدیلی کے حقوق مل گئے تھے۔ یوں میں کئی مہینوں تک اپنی اے پی پی کی جاب کے ساتھ اس جزوقتی کام سے بھی پیسے کماتا رہا۔ انہی دنوں مجھے ایک پرانے صحافی مرحوم اعظم ناصر نے بھی اپنے ماہانہ میگزین انڈسٹریل افیرز کی ایڈیٹنگ کے لیئے مصروف کرلیا۔ وہان سے بھی مجھے ہر ماہ چند ہزار روپے ملنے لگے۔ ان جزوقتی کاموں کی وجہ سے میں کئی مرتبہ اپنے کل وقتی جاب کو متاثر ہوتے دیکھنے لگا تھا۔ لیکن مسئلہ یہ تھا کہ سال دو ہزار پانچ میں بھی اے پی پی سے ہر مہینے بیس ہزار روپے کے قریب تنخواہ میری ضروریات کے لئے کافی نہین تھی۔ اس لیے میں چاہتا تھا کہ کوئی اور کل وقتی جاب ملے جس سے میرے خاندان کی مالی ضروریات بخوبی پوری ہو سکیں۔ جنرل مشرف کے دور میں سال دو ہزار پانچ میں وزارت صنعت و پیداوار کے زیر اتنظام ڈویلپمنٹ کمپنیوں کی تشکیل شروع ہو گئی تھی۔ صنعتوں میں نئی ٹیکنالوجی اور ہنر کو متعارف کروانے کے لئے ٹیکنالوجی اپگریڈیشن اینڈ سکل ڈویلپمنٹ کمپنی (ٹسڈیک) کو قائم کیا جا رہا تھا۔ معروف صنعتکار الماس حیدر کو اس کا چیرمین قائم کیا گیا تھا۔ جب نے بار بار گوہر صاحب سے کسی نئی ملازمت ڈھونڈنے کا کہا تو انہوں نے مجھے اور میرے بیوی بچوں کو لبرٹی کے قریب سن فورٹ ہوٹل میں کھانے پر بلا لیا گوہر صاحب کی بیگم صاحبہ بھی ان کے ساتھ تھیں۔ وہاں انہوں نے مجھے کہا کہ میں اے پی پی کی نوکری چھوڑ کر ٹسڈیک میں پبلک ریلیشنز آفیسر کے طور پر آجاوں۔ تنخواہ بھی دگنی سے زیادہ ہوگی۔ یوں میں نے وقتی طور پر اے پی پی کو چھوڑنے کا فیصلہ کیا۔ طے یہ پایا کہ میرے پاس جو آٹھ مہینے کی چھٹیاں بچی ہوئی ہیں۔ ان کے دوران ٹسڈیک میں ملازمت کرلوں۔ لیاقت علی گوہر نے مجھے دو روز کے بعد کوٹ لکھپت جیل کے عقب میں واقع اسٹیٹ سیمنٹ بلڈنگ میں واقع ٹسڈیک کے کیمپ آفس میں مینجر ایچ آر علی اکبر بوسن سے ملنے کو کہا۔ میں موٹر سایئکل پر سوار ہو کر اسلام پورہ سے کوٹ لکھپت پہنچا۔ ایک بہت پرانی عمارت میں ٹسڈیک نے کام شروع کردیا تھا۔
( جاری ہے)

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here