خار زار صحافت۔۔۔قسط ایک سو سینتالیس

0
149


میڈیا مینجمنٹ: ایک سو اسی درجے کی تبدیلی
تحریر محمد لقمان
علی اکبر بوسن سے ملا تو انہیں بڑا سنجیدہ اور کام سے کام رکھنے والا شخص پایا۔ عمر تو شاید میرے جتنی ہی تھی۔ مگر اپنے جثے اور بھری بھری مونچھوں کی وجہ سے وہ عمر میں بڑے دکھائی دیے۔ مجھ سے لیاقت علی گوہر کا حال چال پوچھا۔ اے پی پی میں میری جے ڈی کے بارے میں سوالات کیے۔ آخری سوال جو مجھ سے پوچھا کہ میں کتنی تنخواہ چاہتا ہوں۔ میں پینتالیس ہزار روپے کا سوچ کر آیا تھا ۔ اتنی ہی تنخواہ کا مطالبہ کردیا۔ بڑی دلچسپ بات ہے۔ کہ انہوں نے اس پر اعتراض نہیں کیا اور مجھے ٹسڈیک کے چیرمین الماس حیدر سے ملوانے کے لیئے ان کے کمرے میں لے گیئے۔ میں ان کو لاہور کے ایک معروف صنعتکار کے طور پر جانتا تھا۔ مگر وہ اس ملاقات سے پہلے میرا نام تک نہیں جانتے تھے۔ ٹسڈیک کے چیرمین نے مجھ سے مختلف سوالات کیے اور پوچھا کہ میں ایک نئی کمپنی کا اچھا امیج کیسے بنا سکتا ہوں۔ میں نے ان کو تسلی بخش جواب دیے۔ وہ میری اردو اور انگلش میں خبر نگاری کی یکساں صلاحیت کے بارے میں سن کر متاثر ہوئے ۔ یوں پندرہ بیس منٹ میں میرا انٹرویو ختم ہوگیا تھا۔ مینجر ایچ آر کے کمرے میں واپس آئے تو علی اکبر بوسن نے مجھ سے تعلیمی اسناد کی نقول مانگیں جو کہ میں نے دے دیں۔ یوں میرا بطور اسسٹنٹ مینجر میڈیا اینڈ پبلک ریلیشنز انتخاب ہو چکا تھا۔ تاہم میرے بزنس کارڈز پر میرا عہدہ ھیڈ میڈیا اینڈ پبلک ریلشنز چھاپا گیا تھا۔ پینتالیس ہزار روپے کی تنخواہ کے علاوہ میڈیکل اور سو لٹر پیٹرول کی سہولت بھی فراہم کر دی گئی تھی۔ دو ہزار پانچ میں یہ تنخواہ کافی معقول محسوس ہوئی۔ چونکہ اے پی پی کی طرف سے تنخواہ کے ساتھ آٹھ ماہ کی چھٹی ملی تھی تو یہ دور میری زندگی کا معاشی آسودگی کا سب سے اچھا دور ثابت ہوا۔ ڈالر کی قدر ساٹھ روپے کے لگ بھگ تھی۔ جونہی میں نے جوایئننگ دی اس کے ساتھ ہی کام شروع ہوگیا۔ مجھے یاد ہے کہ ٹسڈیک کے بورڈ آف ڈایئریکٹر کے کچھ ارکان کا اجلاس پرانی اسٹیٹ سیمنٹ بلڈنگ کے ایک کمرے میں ہوا۔ جس کی صدارت چیرمین الماس حیدر نے کی۔ اس وقت بے سروسامانی کی یہ صورت حال تھی کہ ڈھنگ کی کرسیاں اور ٹیبل بھی میسر نہیں تھے۔ بس ایک عزم تھا کہ ایک نئی کمپنی بنانی ہے۔ جس کا مقصد ملک کی صنعتوں میں نت نئی ٹیکنالوجی کا فروغ تھا۔ اس میٹنگ میں طے پایا کہ لاہور سمیت ملک بھر میں ٹولز، ڈائز اور مشین سینٹرز بنائے جائیں گے۔ ملائیشیا میں ایسے سینٹرز کا مطالعہ کرنے کے لئے ٹسڈیک کے بورڈ کا ایک وفد جائے گا۔ اجلاس کے بعد میں نے انگریزی اور اردو میں ایک خبر بنائی۔ میڈیا میں موجود دوستوں کی مہربانی سے تقریباً تمام بڑے اور چھوٹے انگلش اور اردو اخباروں میں مناسب جگہ پر یہ خبر شایئع ہوئی۔ بزنس ریکارڈر میں زاہد امیر بیگ، دی نیوز میں جواد رضوی ، منور حسن اور منصور احمد ، دی نیشن میں منعم فاروقی، جنگ میں فاخر ملک، نوائے وقت میں احسن صدیق ، ایکسپریس میں محمد الیاس ، ڈان میں امجد محمود اور دیگر دوستوں نے میری کامیابی میں بہت اہم کردار ادا کیا۔ پی ٹی وی میں موجود دوست بھی ہمیشہ ساتھ دیتے رہے۔ جب دسمبر دو ہزر پانچ میں سی این بی سی آیا تو رضوان رضی نے بھی کبھی مایوس نہیں کیا۔ چونکہ بلڈنگ کی تعمیر جاری تھی۔ اس لیے مجھے مختلف دیگر شعبوں کے مینجرز ۔۔ریاض خان، وسیم طاہر، حافظ خلیل احمد، ذیشان صدیقی کے وغیرہ کے ساتھ اوپر کی منزل پر بھوت بنگلہ نما کمرے میں دو تین مہینے رہنا پڑا۔ تصور کریں کہ مون سون کا حبس ہو اور صرف پنکھا ہی آہستہ آہستہ گھوم رہا ہو تو دوپہر کے وقت کیا عالم ہوسکتا ہے۔ مگر ہر شخص میں کام کرنے کا جذبہ تھا۔ آج جس مقام پر ٹسڈیک موجود ہے۔ اس کو جانی پہنچانی کمپنی بنانے میں بندہ ناچیز کا بھی حصہ ہے۔ میری مانگی گئی تنخواہ پر ٹسڈیک مینجمنٹ کیوں فوراً راضی ہوئی۔ اس کا عقدہ چند ہفتوں کے بعد کھلا ۔ مجھے پتہ چلا کہ اس پوسٹ کے لئے معروف اردو اخبار کے ایک کامرس رپورٹر نے ایک لاکھ روپے ماہانہ تنخواہ کا مطالبہ کیا تھا جبکہ ان کی اخبار میں ان دنوں تنخواہ صرف آٹھ ہزار روپے تھی۔ ایک انگریزی اخبار کے رپورٹر جس کی تنخواہ ان دنوں پندرہ ہزار روپے کے لگ بھگ تھی، نے بھی ایک لاکھ روپے سے زیادہ مانگے تھے۔ تنخواہ تو اے پی پی سے زیادہ تھی۔ مگر ایک رپورٹر کا پی آر او کا روپ ڈھالنا بھی کسی ڈراونے خواب سے کم نہ تھا۔

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here