صحافت میں واپسی
تحریر: محمد لقمان
ٹسڈیک میں میں 8 ماہ کی چھٹی لے کر آیا تھا۔۔۔اور یہ چھٹی 28 مارچ 2006 کو ختم ہو رہی تھی۔ سال 2005 اختتام پذیر ہوا تو میرے شعبے۔۔۔ میڈیا اینڈ پبلک ریلیشنز کا ریویو کیا گیا ۔۔۔ مینجمنٹ میرے کام سے خوش تھی۔ کیوںکہ بہت قلیل عرصے میں ایک نوزائدہ ادارہ پورے ملک خصوصاً کاروباری برادری میں ایک جانا پہچانا نام بن چکا تھا۔ اب گوگل کرنے پر آپ کا سامنا بھارت میں تیار کی گئی کھانسی کی دوا یا کسی امریکی کمیکل ٹسڈیک ہائڈرو کلورائیڈ سے نہیں پڑتا تھا بلکہ پاکستان کی ٹیکنالوجی اپگریڈ یشن اینڈ سکل ڈویلپمنٹ کمپنی کا نام سامنے آجاتا تھا۔ اس موقع پر مجھے ٹسڈیک انتظامیہ نے پیشکش کی کہ میں مستقل طور پر ان کی کمپنی میں آ جاوں ۔ مگر سترہ سال طویل رپورٹنگ کیریر کسی کا بھی دماغ خراب کردیتا ہے۔ اس کے علاوہ اے پی پی کی مینجمنٹ کی طرف سے بھی دباو تھا کہ میں واپس اپنی ذمہ داریاں سنبھال لوں۔ بالآخر 28 مارچ کا دن آ ہی گیا۔ لنچ کے بریک میں میرے اعزاز میں کمپنی کے اکلوتے میس میں الوداعی تقریب کا اہتمام کیا گیا تھا۔ اس موقع پر کمپنی کے چیرمین الماس حیدر ، مینجر ایچ آر علی اکبر بوسن کے علاوہ افسران اور دیگر ملازمین بھی موجود تھے۔ آفس بوائے فتح محمد تو بہت جذباتی نظر آرہا تھا۔ اس کی نم آلود آنکھوں سے خلوص اور وفاداری جھلک رہی تھی۔ الماس حیدر صاحب نے اس موقع پر مختصر خطاب میں کمپنی کے لئے میری خدمات کوسراہا اور مستقبل میں کامیابی کے لئے نیک خواہشات کا اظہار کیا۔ مجھے کرسٹل سے بنے ہوئے ایک سونیر سے بھی نوازا گیا جو کہ ابھی تک میرے گھر میں محفوظ ہے۔۔ تقریب کے بعد میں بلڈنگ کی بالائی منزل پر واقع اپنے کیبن نما کمرے میں گیا۔ ابھی پانچ بجے تک مجھے ٹھہرنا تھا۔ اس دوران مجھے وہ لمحات بھی یاد آئے جو کہ میں نے موجودہ عمارت کی تعمیر سے پہلے ایک بھوت بنگلہ نما عمارت میں جولائی اور اگست کے حبس والے دنوں میں کمپنی کی پائنیر ٹیم کے ساتھ گذارے تھے۔ اب میرے پاس ایک مکمل سجا سجایا کیبن تھا جس میں جدید کمپیوٹر ، ایگزیکٹو چیر اور ایک ٹن کا اے سی بھی تھا۔ کمرہ چھوٹا ہونے کی وجہ کئی دفعہ ٹھنڈک اتنی ہو جاتی تھی کہ بیٹھے بیٹھے سو جاتا تھا۔ ان مناظر کو دیکھ کر میرے سامنے والے کمرے میں موجود کمپنی سیکرٹری اور چیف فنانشل آفیسر عارف کچلوآ جاتے تو ہنستے ہوئے اٹھا دیتے ۔ اکثر وارننگ بھی دے دیتے کہ اگر چیف ایگزیکٹو نے اس حالت میں دیکھ لیا تو قیامت آجائے گی۔ بہرحال اب کوچ کرنے کا وقت آ چکا تھا۔ میں نے اپنی ٹیبل کی دراز سے اپنا سامان سمیٹا اور سب سے اجاز ت لیکر نیچے آگیا۔ باہر لان میں میرا ڈرائیور احمر کار میں انتظار کر رہا تھا۔ ٹسڈیک کے آٹھ ماہ کے دور میں میں نے سچ مچ مالی آسودگی کا مزہ لیا تھا۔ اگست 2005 میں پرانی ہونڈا موٹر سائکل کی جگہ ایک نئی پاک ہیرو موٹرسائکل خرید لی تھی اور اس سے کچھ ماہ بعد سوا لاکھ روپے کی ایک پرانی مہران کار بھی اپنے گھر میں لانے میں کامیاب ہوگیا تھا۔ مگر صحافت کا کیڑا کسی طور بھی مجھے طور پر ٹسڈیک میں دیکھنے کو تیار نہیں تھا۔ ڈال ڈال پر جا کر روزی کمانے والے رپورٹر کی زندگی اور ہی ہوتی ہے۔ جس کو ایک کمرے میں بند ہونا کبھی سود مند نہیں لگتا۔ اب مجھے واپس اس نوکری میں آنا تھا جہاں تنخواہ آدھی سے بھی کم تھی۔ بہر حال اگلے روز دوبارہ اے پی پی لاہور کے چائنہ چوک والے دفتر میں جائننگ دی تو مناظر کافی بدلے ہوئے تھے۔ اکانومی کی بیٹ اب کسی اور کے پاس تھی۔ میرے لیے مخصوص کمپیوٹر اور کرسی پر بھی کسی اور اور کا قبضہ ہو چکا تھا۔ یہ سب چیزین واگذار کروانے میں چند دن لگ گئے۔۔ اکانومی کے ساتھ ساتھ لاہور میں صدر مشرف ، وزیر اعظم شوکت عزیز اور وفاقی کابینہ کے وزرا کی آمد پر کوریج کی ذمہ داری بھی کلی طور پر مجھے مل چکی تھی۔ ایک اچھے کارپوریٹ ماحول میں آٹھ مہینے گذارنے کے بعد اے پی پی کا نظام بہت فرسودہ لگ رہا تھا۔ مگر اب نوکری تو کرنی تھی۔ رہی سہی کسر میڈیکل اور دیگر سہولیات پر مختلف پابندیوں نے بھی پوری کردی تھی۔ اب دونوں بچے ۔۔ سائرہ ثمن اور عبیدالحنان سکول جانا شروع ہوگئے تھے۔ اس لیے وسائل کی کمی کا احساس بھی تھا۔ اب صرف اچھے وقت کا انتظار ہی تھا۔ تنخواہ کے علاوہ اپنا ذاتی گھر اور نچلے پورشن سے آنے والا چند ہزار روپے کی کرائے کی رقم ہی ایک بڑا سہارا تھی۔