خار زار صحافت۔۔۔۔قسط ایک سو چھپن

0
66


ایک شہزادے کی لاہور آمد
تحریر: محمد لقمان
اکتوبر دو ہزار چھ کے وسط کی بات ہے کہ بین الاقوامی اور پاکستانی میڈیا میں برطانیہ کے شہزادے چارلس اور ان کی دوسری اہلیہ کامیلا پارکر کے مجوزہ دورہ پاکستان کی خبریں آنے لگیں۔ ایک طویل عرصے کے بعدبرطانوی شاہی خاندان کے کسی فرد کا یہ دورہ پاکستان تھا۔ خاص طور پر ان دنوں اس دورے کی بہت اہمیت تھی۔ خطے میں جاری دہشت گردی کے خلاف عالمی جنگ کی وجہ سے ملک کے مختلف حصوں میں دہشت گرد ی کے واقعات ہو رہے تھے۔اور فوجی حکمران جنرل پرویز مشرف ان حملوں کا خاص ھدف تھا۔ اے پی پی نے شہزادہ چارلس ، ان کی اہلیہ اور وفد کے دیگر ارکان کی کوریج کا پلان تیار کر لیا تھا۔ انتیس اکتوبر کو انہوں نے اسلام آباد آنا تھا جب لاہور میں ان کی آمد دو نومبر کو متوقع تھی۔ انہوں نے زلزلہ سے متاثرہ آزاد کشمیر کا دورہ بھی کرنا تھا۔ مگر ان کی سفر کی معلومات کو انتہائی خفیہ رکھا گیا تھا۔ لاہور میں ان کی ملاقات گورنر خالد مقبول اور وزیر اعلی چوہدری پرویز الہی کے ساتھ طے تھی۔ انہوں نے بادشاہی مسجد، علامہ اقبال کے مزار، گوردواہ ڈیرہ صاحب کے علاوہ مال روڈ پر واقع کیتھڈرل چرچ میں بھی جانا تھا۔ گویا کہ ایک روز میں چار سے پانچ مقامات پر کوریج ہونی تھی۔ میرے ذمے مال روڈ پر کیتھڈرل کے دورے کی کوریج تھی۔ اس کے لیئے میری اور دیگر رپورٹرز کی تصویریں ، شناختی کارڈز کی کاپیاں اور دیگر معلومات پی آئی ڈی کے ذریعے سپیشل برانچ کو پہنچا دی گیئ تھیں۔ شاہی جوڑا اسلام آباد پہنچا تو ان کی ملاقات صدر پرویز مشرف اور وزیر اعظم شوکت عزیز سے ہوئی ۔ ان ملاقاتوں میں پاک۔ برطانیہ تعلقات کی تو بات ہوئی ۔ ساتھ ہی ایک پاکستانی نژاد برطانوی شہری مرزا طاہر حسین کو ملنے والی سزائے موت پر بھی بات ہوئی۔ اس کو قتل کے جرم میں عدالت نے سزائے موت سنائی تھی۔ برطانوی حکومت اس کی بریت چاہتی تھی جبکہ عدالت کی طرف سے جاری شیڈول کے مطابق اس کو سزائے موت شہزاہ چارلس کے دورہ پاکستان کے دوران ہی دی جانی تھی۔ مگر سفارتی دباو کی وجہ سے مرزا طاہر حسین کو سزا اکتیس دسمبر تک ٹال دی گئی۔ اس سزائے موت پر عمل در آمد ہوا یا نہیں۔ اب یہ مجھے یاد نہیں۔ا بالآخر جمعرات کے روز شاہی جوڑا لاہور آگیا۔ سخت سیکیورٹی میں ان کو ایر پورٹ سے گورنر ہاوس لایا گیا ۔ بعد میں وہ بادشاہی مسجد ا ور گوردواہ ڈیرہ صاحب گئے۔ ان جگہوں پر کوریج کی ذمہ داری میرے دیگر ساتھیوں کی تھی۔ کیتھڈرل چرچ کا دورہ تو دو بجے کے لگ بھگ تھا۔ مگر ہمیں تقریباً دو گھنٹے پہلے ہی دفتر سے وہاں پہنچا دیا گیا تھا۔ چرچ کے باہر لان میں سرکاری میڈیا کو ٹھہرنے کے لیئے کہا گیا۔ پی ٹی وی کے کیمرہ مین اور پی آئی ڈی اور اے پی پی کے فوٹو گرافرز کو بھی ایک حد تک جانے کی اجازت تھی۔ بالآخر گاڑیوں کے ہوٹر کی آواز آئی۔ ہم سرکاری میڈیا کے لوگ پرنس آف ویلز اور ان کی اہلیہ کی چرچ کی اندرونی عمارت میں داخل ہوتے ہوئے چند سیکنڈز کے لئے ہی دیکھ سکے تھے۔ شہزادے کی نسبت ان کی اہلیہ کامیلا پارکر زیادہ عم کی لگ رہی تھیں۔ پاکستان میں برطانوی ہائی کمشنر مارک لائل گرانٹ بھی ان کے ساتھ تھے۔ مجھے یاد ہے کہ ان کا استقبال بشپ الیگزنڈر جان ملک نے کیا تھا جبکہ ان کے ساتھ چیمبرلین شاہد مہراج بھی تھے۔ جیسے انگریزی کا محاورہ ہے کہ بادشاہ پر تو ایک بلی بھی نظر ڈال سکتی ہے۔ وہی کیفیت ہم میڈیا والوں کی بھی تھی۔ ہم بھی ان شاہی مہمانوں کو کچھ دیر کے لیئے ہی دیکھ سکے تھے۔ لگ بھگ آدھے گھنٹے کے بعد شاہی جوڑا چرچ کی اندرونی عمارت سے باہر آیا ۔ اس بار بھی گاڑی میں بیٹھنے سے پہلے کچھ دیر کے لیئے وہ ہمیں نظر آئے۔ ان کو بشپ الیگزنڈر جان ملک نے رخصت کیا۔ سیکورٹی ایس او پیز کے مطابق میڈیا اور دیگر مہمانوں کو شہزادے اور ان کے وفد کے جانے کے بعد بھی کچھ دیر چرچ کی عمارت میں رکنا تھا۔ اس لیے شاہی جوڑے کی رخصتی کے کم ازکم پندرہ منٹ بعد ہی ہماری رخصتی ہو سکی۔

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here