خار زار صحافت۔۔۔قسط ایک سو سترہ

0
620


مشرف کی ایک یادگار تقریر
تحریر: محمد لقمان
اپریل دو ہزار دو کی ایک سہہ پہر تھی۔ پنجاب کے شہر اوکاڑہ کے اسٹیٖڈیم میں جلسہ عام کا انتظام کیا گیا تھا۔ اس جلسے کی عوامی حیثیت اتنی تھی کہ سرکاری طور پر بسوں اور ٹریکٹر ٹرالیوں پر لوگ زبردستی لائے گئے تھے۔ حجرہ شاہ مقیم اور اوکاڑہ سے تعلق رکھنے والے کئی عوامی لیڈرز نے اس جلسے کا اتظام کیا تھا۔۔جن میں کئی گیلانی تھے تو کچھ راو۔ فوج اور پولیس کی ایک بہت بڑی تعداد نے جلسہ گاہ کے اندر اور باہر پوزیشنز سنبھالی ہوئی تھیں۔ یہ جلسہ اصل میں صدر جنرل پرویز مشرف کی طرف سے بیس اپریل دو ہزار دو کے ریفرنڈم سے پہلے کی کیمپین کا حصہ تھا۔ اے پی پی کے رپورٹر کی حیثیت سے میں پی آئی ڈ ی اور دیگر سرکاری میڈیا کے ارکان کے ساتھ جلسے کی کوریج کے لئے اوکاڑہ پہنچا تو سیکیورٹی چیکنگ کے لئے کئی فرلانگ پہلے ہی گاڑی کو روک لیا گیا۔ خوب چیکنگ ہوئی تو ہمیں پیدل اسٹیڈیم کی طرف جانے کی اجازت دی گئی۔ واک تھرو گیٹس سے گذرے ۔ بعد میں جامہ تلاشی کے مرحلے سے بھی گذرنا پڑا۔ کتوں نے پی ٹی وی کے کیمرہ کو سونگھا اور کلیرنس دی تو کیمرہ مین کو اندر جانے کی اجازت ملی۔ بہر حال مزید سیکیورٹی چیکس اور بیریرز کو عبور کرتے سرکاری میڈیا کے لئے لگائی گئی کرسیوں پر براجمان ہوئے تو آئی ایس پی آر کے افسران ہدایات کے لئے آگئے۔ بالآخر گھنٹہ ڈیڑھ گھنٹے کے انتظار کے بعد سیٹیوں کی آوازیں اور بوٹوں کی کھٹاک کھٹاک سنائی دی تو پتہ چلا کہ مملکت خداداد کے صدر تشریف لا چکے ہیں۔ اسٹیج پر پہلے سے ہی علاقے کے عمائدین موجود تھے۔ جنرل مشرف نے گیروے رنگ کا کرتہ اور سفید رنگ کی شلوار پہنی ہوئی تھی۔ جب ان کے حامی سیاستدانوں نے ان تعریف میں آسمان کے قلابے ملائے تو جنرل مشرف کے چہرے پر دبی دبی مسکراہٹ آئی۔ ان کے حق میں بڑی پرجوش نعرے بازی بھی ہوئی۔ بالآخر جنرل مشرف تقریر کے لئے آئے تو انہوں نے بتایا کہ وہ جمہوریت کے لئے کیا کچھ کر رہے ہیں۔ ان کے مخالف سیاستدانوں کے پاس تو ملک کی بہتری کے لئے کوئی پلان نہیں۔ اگر وہ دیر تک ملک کی قیادت کریں گے تو کتنے فوائد حاصل ہوں گے۔ تقریر کرتے کرتے ایک دم جذبائی ہوئے اور مخالف سیاسی جماعتوں اور ان کے رہنماوں کے خوب لتے لیے۔ انہوں نے کہا کہ یہ لوگ کہتے ہیں کہ میرا ایمان کتنا کمزور ہے اور میں مغرب کا ساتھ دے رہا ہوں۔ اپنی تقریر کو مذہبی ٹچ دیتے ہوئے ہوا میں بازو لہرائے اور کہنے لگے کہ ان میں سے کوئی ایسا ہے جو کہ خانہ کعبہ کی چھت پر چڑھا ہو۔ ایک بار پھر بازو ہوا میں بلند کرکے گویا ہوئے کہ ان میں سے کوئی ایسا ہے جس نے خانہ کعبہ کے اوپر چڑھ کر اللہ اکبر کا نعرہ لگایا ہو۔ میں تو خانہ کعبہ کی چھت پر چڑھ کر اللہ اکبر کا نعرہ لگا چکا ہوں۔ یہ کہا اور مخالفت سیاستدانوں کو مکا ر اور پتہ نہیں کیا کیا کہہ ڈالا۔ ہم سب حیران تھے کہ ریفرنڈم کے جلسے میں مذہبی تقریر کی کیا ضرورت تھی۔ یہ وہی مشرف تھے جنہوں نے بھارتی پارلیمنٹ پر تیرہ دسمبر دو ہزار ایک کے حملے کے بعد نئی دہلی کے الزامات کے بعد پاکستان کی مذہبی جماعتوں کا گھیر ا تنگ کردیا تھا۔ اور بارہ جنوری دو ہزار دو کو لشکر طیبہ، جیش محمد سمیت پانچ جماعتوں کو کالعدم قرار دے دیا تھا۔ اور مدرسوں کی رجسٹریشن کے علاوہ معاشرے میں روشن اور متعدل خیالی کے لئے ایک مہم بھی چلائی ہوئی تھی۔یہی مشرف تھے جو کہ جدید ترکی کے سیکولر بانی کمال اتا ترک کو کئی مرتبہ اپنا آئیڈیل قرار دے چکے تھے۔ مگر ریفرنڈیم سے پہلے ایک دم مذہبی ہو گئے تھے۔ گویا کہ پاکستان میں سویلین ہو یا فوجی حکمران، مذہبی کارڈ صرف اسی صورت استعمال کرتے ہیں جب ان کے سنگھاسن کو کوئی خطرہ ہو یا اقتدار کو طول دینا ہو۔ ورنہ عام زندگی تو سب ایک ہی جیسے ہوتے ہیں۔

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here