خارزار صحافت۔۔۔قسط ایک سو پندرہ

0
714


اے پی پی پر سرکاری افسران کا غلبہ
تحریر: محمد لقمان
ایم آفتاب نیوز ایجنسی میں رپورٹر سے ڈی جی کی پوسٹ تک پہنچنے والے اے پی پی کے آخری سربراہ تھے۔ ان کے بعد نجی شعبے سے آنے والے چند صحافیوں کے سوا زیادہ تر ڈائریکٹر جنرل وزارت اطلاعات خصوصاً پریس انفرمیشن ڈیپارٹمنٹ سے آنے والے افسران تھے۔ کئی مرتبہ تو عہدے کے لئے مطلوبہ گریڈ سے نچلی سطح والے بھی اے پی پی کی حکمرانی کے مزے لیتے رہے۔ ایم آفتاب کے بعد وزارت اطلاعات سے آنے والے ڈی جی جاوید اختر تھے۔ ستاون اٹھاون سال کی عمر اور چہرے پر ایک عجب رعونت تھی۔ بہت کم ہی مسکراتے دیکھا۔ جب بھی لاہور آتے تو اپنے ڈی ایم جی گروپ کے بیچ میٹ سلمان غنی کا انٹرویو کرنے کا ضرور کہتے ۔ ایک دن میں سلمان غنی جو ان دنوں سیکرٹری آبپاشی پنجاب تھے، سے ملنے کے لئے ان کے پرانی انارکلی کے پاس دفتر میں چلا گیا۔ اپنا بزنس کارڈ اردلی کے ذریعے سیکرٹری صاحب تک پہنچایا۔ تقریبا ً ایک گھنٹہ انتظار کروانے کے بعد اندر بلایا ۔ بڑی بے تکلفی سے پوچھا کہ جیدی کا کیا حال ہے۔ میں سمجھ گیا کہ ڈائریکٹر جنرل کے بارے میں پوچھ رہے ہیں۔ میں نے بتایا کہ بالکل خیریت سے ہیں۔ اور میں ان کی خواہش پر ہی آپ کا انٹرویو کرنے آیا ہوں۔پہلے زور سے قہقہ لگایا اور پھر گویا ہوئے کہ جیدی تے کملا ہوگیا اے۔ میرے کول کہڑی خبر ہوندی اے۔کوئی ہور گل کرو۔۔اس کے بعد مزید بات کرنے کے لئے کچھ نہیں رہا تھا۔ میں نے ان سے اجازت لی اور دفتر آگیا۔ چند روز بعد اسلام آباد سے جاوید اختر صاحب آئے تو پوچھا کہ سلمان غنی کا انٹرویو کیا تھا۔ تو میں نے بتایا کہ انہوں نے بات کرنے سے انکار کردیا تھا۔ اس پر انکا چہرہ مزید سنجیدہ اور رنجیدہ ہوگیا۔ منہ سے ایک بڑی سی ہوں نکالی اور چلے گئے۔ انہی دنوں میں نے بارش کے پانی کو محفوظ کرنے کی ٹیکنیک رین ہاروسٹنگ کے بارے میں خبر دی جو مختلف انگریزی اور اردو اخبارات میں چھپی تو انہوں نے اخباری تراشوں کے ساتھ مجھے شاباش کا پیغام بھی بھیجا۔ وہ ایک روایتی قسم کے بیوروکریٹ تھے۔ مگر اے پی پی جیسے قومی خبررساں ادارے کو چلانا ان کے بس کی بات نہیں تھی۔ ان کے بعد مفتی جمیل الدین احمد ڈی جی بنے۔ جیسا کہ ان کا نام تھا۔ شکل سے بالکل مختلف تھے۔ کلین شیو اور عموماً سوٹڈ بوٹڈ۔ تقریباً ایک سال ہی اے پی پی میں رہے۔ ایک فوجی حکومت اور دوسرے سرکاری افسران کی قیادت، اے پی پی کے صحافیوں کی تخلیقی صلاحیتوں کا استعمال کافی کم ہوگیا اور رپورٹرز اپنی بیٹ سے چبنے والی خبریں لانے کی بجائے پریس ریلیزوں پر ہی گذارا کرنے لگے۔ سال انیس سو ننانوے میں اپنی معراج تک پہنچنے والی فیچر سروس کافی حد تک زوال پذیر ہو چکی تھی۔ اب اے پی پی کا رپورٹر ایک صحافی نہیں بلکہ ایک سرکاری ملازم بن چکا تھا ۔ جس کی گردن پر وزارت اطلاعات کا کسی بھی درجے کا افسر جب چاہے جیسے چاہے، کاٹھی ڈال سکتا تھا۔ اس لیے کہا جاتا تھا کہ اپنی عقل بچا کر رکھو اور جو ہیڈ آفس کہتا ہے۔ وہی کام کرو۔
دو ہزار ایک میں میری زندگی میں دو خوشیاں بھی آئیں۔ دونوں خوشیاں جولائی کے مہینے میں ہی نصیب ہوئیں۔ سات جولائی دو ہزار ایک کو اللہ تعالی نے ہمیں ایک بیٹے کی نعمت سے نواز ا۔ سائرہ ثمن کے بعد عبید الحنان کے آنے سے ہمارا خاندان مکمل ہوچکا تھا۔ ہم نے اس سے زیادہ اولاد کی خواہش بھی نہیں کی تھی۔ دوسری خوشی ایک نیا مکان خریدنے کی تھی۔ ساندہ روڈ کے محمد ی پارک کا ڈھائی تین مرلے کا مکان مہمانوں کے آنے کی صورت میں بہت چھوٹا پڑ جاتا تھا۔ اس کو بیچ کر پانچ مرلے کا مکان اسلام پورہ میں انصاری روڈ پر خریدا تو رہائش کا مسئلہ حل ہونے کے ساتھ ساتھ اضافی آمدنی کا ذریعہ بھی بن گیا۔ نچلا پورشن کرائے پر دے دیا اور خود اوپر والی منزل پر رہائش اختیار کرلی۔ کرایہ اگر چہ چار ہزار روپے کے قریب تھا۔ مگر اس دور کے حساب سے کچن کا خرچہ پورے کرنے میں کافی آسانی ہوگئی تھی۔

View Post

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here