مہاتير کے ديس ميں ۔۔۔قسط دوم

0
4500

تحرير: محمد لقمان

چنائے ايکسپريس

سن وے سٹي ميں کليو جيسے مہنگے ہوٹل سے آدھے کلوميٹر دور ہي ملائي اور انڈين کھانوں کے درجنوں ریسٹورینٹس ہيں۔ جہاں پاکستاني بھارتي اور ملائي کھانے کثرت سے دستياب ہيں۔ عموماً کھانے کي قيمت بھي عام سياح کي پہنچ کے مطابق ہي ہے۔ چلتے چلتے محمد اينڈ سلام ريسٹورينٹ نظر آيا تو دل کو اطمينان مل گيا کہ اب حلال کھانے مل ہي جائيں گے۔ ملائشيا جيسے ملک ميں حلال کھانے کي خواہش اس ليے بھي ہوتي ہے کہ آپ کو کوالالمپور ميں پورک يعني لحم الخنزير کي دکانيں بھي نظر آتي ہيں اور چيني ہوٹلز پر مينڈک کي تصويريں بھي۔ اس ليے ايک پاکستاني کے لئے بہتر ہے کہ وہ انڈين فوڈ والے ہوٹل کا ہي انتخاب کرے جن کے اکثر مالک تامل النسل مسلمان ہيں۔ جن کے آبا و اجداد  کو انيسويں صدي کے اواخر اور بيسويں صدي کے شروع ميں انگريز ربڑ اور آئل پام کي کاشت کے لئے اس وقت کے متحدہ ہندوستان کے  علاقوں تامل ناڈو، کيرالا اور آندھرا پرديشں سے لے کر آئے تھے۔ محمد اينڈ سلام ريسٹورينٹ ميں داخل ہوئے تو محمد اقبال نامي تامل مسلمان نے استقبال کيا۔ انگريزي زبان ميں گفتگو کي اور مينو سے آگاہ کيا۔ چنا چپاتي کے لئے آرڈر ديا تو بھوک کي وجہ سے کھانا کچھ زيادہ ہي مزيدار لگا۔ کھانا اتنا زيادہ کھايا کہ يہ ہمارے ليے ايک برنچ سے کم نہ تھا۔ ہوٹل ميں بيٹھے ہوئے کچھ دير ہوئي تو چند لوگ اونچي آواز ميں بولتے ہوئے اندر داخل ہوئے۔ پوچھا کہ کيا جھگڑا ہو رہا ہے تو ہوٹل کے مالک نے بتايا کہ تامل ذرا اونچا ہي بولتے ہيں۔ اس موقع پر بھارتي فلم چنائے ايکسپريس بہت ياد آئي۔ جس ميں تمام تامل کردار اسي طرح بولتے نظر آئے تھے۔ اسي دوران ايک جواں سال لڑکي ريسٹورنٹ ميں داخل ہوئي اور ايک ويٹر سے تامل زبان ميں اونچا اونچا بولنے لگي۔ ايک دم اس نے ہميں ديکھا تو پوچھا کہ کيا ہم بھارت سے آئے ہيں۔ ہم نے بتايا کہ ہمارا تعلق پاکستان کے شہر لاہور سے ہے۔ تو بہت خوش ہوئي ۔ کہنے لگي کہ ملائشيا کي موناش يونيورسٹي ميں اس کے لئے کئي کلاس فيلو پاکستان سے ہيں۔ پوچھا کہ اتني شستہ انگريزي کيسے بول ليتي ہو تو بولي کہ ہندي سے نفرت کي وجہ سے۔ اس کو اس بات پر فخر تھا کہ اس کي زبان تامل ہے، ہندي نہيں۔ ہندي نہ جاننے کي وجہ سے ہي جنوبي بھارت کا شہر بنگلور سليکان ويلي کي حيثيت اختيار حاصل کرسکا تھا۔ اس لڑکی سمایہ کے بقول شمالی بھارت کے لوگ ہندی سے محبت کی وجہ سے جنوبی علاقوں کے لوگوں کا اچھا نہیں سمجھے اور ہندو بنیاد پرستی بھارتی پنجاب، ہریانہ اور یوپی میں پھل پھول رہی ہے۔ اس کو بات پر بھی فخر تھا کہ جنوبی ریاستوں میں گائے کے گوشت کی فروخت پر پابندی نہیں ہے اور بلالحاظ مذہبی تفریق، کیرالہ اور تامل ناڈو میں بڑا گوشت کھایا جاتا ہے۔ بعد میں کھانوں کے مرکز راک کارنر میں جانے کا موقع ملا وہاں گوجرانوالہ سے آیا ہوا سفیان ملا مگر جو مزہ محمد اینڈ سلام کے کھانوں میں تھا اس کی وجہ سے ملائشیا کے قیام کے دوران اسی ریسٹورینٹ میں جاتے رہے۔ کیوںکہ  ضلع شیخوپورہ سے سے تعلق رکھنے والے پنجابی کک علی نے ہمیں اپنے بنائے ہوئے پراٹھوں اور نان کا گرویدہ بنالیا تھا۔

(جاری ہے(

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here