مہاتیر کے دیس میں۔۔۔۔قسط اٹھارہ

0
3157

تحریر: محمد لقمان

کیری آئی لینڈ۔۔ملائشیا کی معیشت اور ثقافت کا امین

ساری عمر پام آئل سے بنے گھی استعمال کرنے والے پاکستانی  کے لئے اس سے بہتر کیا موقع ہوسکتا ہے کہ اسے اس تیل کے ماخذ  آئل پام کے درخت اپنی آنکھوں سے دیکھنے کو مل جائیں۔  بائیو ٹیکناجی ورکشاپ کے منتظمین نے کیری آئی لینڈ لے جانے کا مژدہ سنایا تو آئل پام کے درختوں کے بارے میں تمام تصورات ایک ایک کرکے ذہن میں آنا شروع ہوگئے۔ اس جزیرے کی ایک عجب تاریخ ہے۔ 20 ویں صدی کے آغاز پر برطانوی سرمایہ کار ایڈورڈ ویلنٹائن جان کیری نے ملایا کی ریاست سیلانگور کے سلطان علاوالدین سلیمان شاہ سے جزیرے کے مالکانہ حقوق حاصل کیے اور 1905 میں  اس پر ربڑ کے درختوں کی کاشت کا آغاز کیا۔ یہی وجہ ہے کہ پلاو نام کے اس جزیرے کو اب کیری آئی لینڈ کے نام سے پکارا جاتا ہے۔ کوالالمپور سے 45 کلومیٹر دور آبنائے ملاکا کے کنارے موجود زمین کا یہ ٹکڑا کسی طور پر جزیرہ نظر نہیں آتا۔ اس کے ایک طرف دریائے لنگت ہے تو دوسری طرف آبنائے ملاکا ہے۔ گویا کہ کسی طرح بھی یہ جزیرے کی ٹیکسٹ بک  تعریف پر پورا نہیں اترتا۔ جزیرے سے بہت پہلے ہی سڑک کے کنارے آئل پام کے درخت نظر آنا شروع ہوجاتے ہیں۔ جب جزیرے پر پہنچتے ہیں تو ہر طرف خوردتی تیل سے بھرے پھل سے لدے پام آئل ایک جنگل کا نظارہ دیتے ہیں۔ اس کے جنوب میں کلانگ کی بندرگاہ  ہے تو تھوڑے ہی فاصلے پر تیلوک پنگلیمہ گارنگ، جنجا روم اور بینٹنگ کے چھوٹے چھوٹے قصبے موجود ہیں۔ دریائے لنگت پر دو پل اس جزیرے کو ملائشیا کے دیگر علاقوں سے منسلک کرتے ہیں۔ بس پر موجود سیاحتی گائڈ پون کمار نے دوران سفر ورکشاپ کے شرکا کو بتایا کہ  اس جزیرے پر سی فوڈ کی مختلف اقسام بکثرت ملتی ہیں۔ یہی وجہ ہے سیاح کیکڑے ، جھینگوں اور مچھلی کی مختلف اقسام کا مزہ لینے کے لئے یہاں آنا پسند کرتے ہیں۔ جزیرے کا کل رقبہ 32 ہزار ایکڑ ہے جو کہ سنگاپور  کے رقبے کا  تقریباً پانچواں حصہ ہے۔

اس جزیرے کی وجہ شہرت  صرف آئل پام کے درخت ہی نہیں ہیں بلکہ ملائشیا کے قدیم ترین قبیلے ماہ میری جس کو میک میری بھی کہا جاتا ہے، کا مسکن بھی یہیں پر ہے۔  یہ قبیلہ اپنے مخصوص رقص، موسیقی اور مجسمہ سازی آرٹ کی وجہ سے دنیا بھر میں جانا جاتا ہے۔  اس قبیلے کی کل آبادی 1400 افراد پر مشتمل ہے۔ ان کا لکڑی پر کندہ کیا ہوا آرٹ نائری باتو بہت مشہور ہے۔ ملائشیا کی حکومت نے اس قبیلے کی ثقافت کو محفوظ کرنے کے لئے متعدد اقدامات کیے ہیں۔ پون کمار نے اس قبیلے کے بارے میں جتنی تفصیل سے بتایا ہر کسی کو ایسے لگا جیسے آئل پام کے ہر درخت کے پیچھے کوئی نہ کوئی قبائلی پناہ لیے ہوئے ہے۔

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here