خار زار صحافت۔۔۔قسط چار

0
2887

آخر زراعت میں دلچسپی کیسے بڑھی

تحریر: محمد لقمان

زیر تربیت صحافیوں کے گروپ میں منیر احمد سعید جیسے بامشکل دو یا تین افراد تھے جن کا زراعت سے کوئی لینا دینا تھا۔ باقی سب کا ایسے خاندانوں سے تعلق تھا جن کے پاس ایک کینال بھی زرعی اراضی نہیں تھی۔ لیکن آنے والے دنوں میں مجھ سمیت اے پی پی کے 1990 کے بیچ کے تمام ارکان نے زرعی شعبے پر بہت اچھی خبریں فائل کیں۔ اس کی وجہ تربیت کے دوران زرعی شعبے سے منسلک اداروں  کا دورہ اور وہاں ملنے والی بریفنگ تھیں۔ اسلام آباد کے نواحی علاقے چک شہزاد میں واقع پاکستان ایگریکلچر ریسرچ کونسل اور نینشل ایگریکلچر ریسرچ سینٹر لے جایا گیا۔  وہاں پے اے آرسی کے چیرمین سے ملایا گیا جنہوں نے پاکستان میں زراعت کے شعبے میں تحقیقات کے بارے میں تفصیلاً بات کی۔ بعد میں پی اے آرسی کے اس وقت کے کمیونیکیشن آفیسر تنویر احمد این اے آر سی لے کر گئے۔ وہاں مختلف فصلوں پر جو ریسرچ ہو رہی تھی۔ اس کے بارے بریفنگ دی گئی۔ تربیت کے دوران ہی ہمیں اسلام آباد کے نواحی علاقے فتح جنگ لے جایا گیا۔ جہاں چھوٹے ڈیم کی سیر کرائی گئی۔ پہلی دفعہ پتہ چلا کہ ایک ڈیم کے ارد گرد کا جو علاقہ ہوتا ہے۔ اس میں درخت کثرت میں نہ ہوں تو ڈیم میں بھل اکٹھی ہوجاتی ہے اور پانی اکٹھا ہونے کی گنجائش کم ہو جاتی ہے۔ ڈیم کے نواح میں جہاں مقامی اقسام کے درخت اور پودے اگائے گئے تھے وہیں آسٹریلیا سے درآمد کردہ اپل اپل اور دیگر پودوں اور درختوں کو دیکھنے کا موقع ملا۔  خیبر پختون خوا کے ضلع مانسہرہ میں بٹراسی جنگلات میں لے جایا گیا ۔ اس دورے میں اس وقت کے انسپکٹر جنرل فاریسٹس عبیداللہ جان اپنے جواں سال بیٹے عمر سمیت ہمارے ہمراہ تھے۔ چیڑ سمیت درختوں کی پہاڑی اقسام کے بارے میں آگاہی ملی۔ بٹراسی میں واقع محکمہ جنگلات کے ریسٹ ہاوس میں تھوڑا سا آرام کیا اور کھانا کھایا۔ گروپ فوٹو بھی ہوا۔ یقین ہے کہ کسی نہ کسی ساتھی کے پاس وہ تصویر ضرور موجود ہوگی۔ پانی کا سحر کتنا ہوتا ہے۔ اس کا اندازہ جنوری 1991 میں تربیلا کے دورے کے دوران ہوا۔  جتنی دیر وہاں رہے ایک عجب سی شانتی ذہن پر چھائی رہی۔ تربیلا جھیل کے پاس پہنچے تو ھنزہ سے تعلق رکھنے والے کریم مدد اچانک ہی پاس کی پہاڑیوں پر چڑھ گئے۔ بڑی مشکل سے انہیں نیچے اتارا گیا۔ تربیلا ڈیم کے محکمہ تعلقات عامہ کے سربراہ  ذوالفقار حسین جعفری نے ڈیم کے مختلف حصوں کی سیر کرائی۔ منصوبے کے مینجر نے بجلی کی پیداوار کے بارے میں بتایا۔ تقریباً ستائیس سال کے بعد جب 2018 میں جب تربیلا گیا تو میں نے جعفری صاحب کے بارے میں پوچھا تو بتایا گیا وہ ریٹائرمنٹ کے بعد گھر پر ہی ہیں اور صاحب فراش ہیں۔ اللہ تعالی ان کو صحت دے۔ اے پی پی کے ڈائریکٹر نیوز ایم آفتاب نے زیر تربیت صحافیوں کو زرعی شعبے سے متعارف کروایا اس کا ثمر ابھی بھی ہمیں مل رہا ہے۔

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here