خار زار صحافت۔۔۔قسط بیاسی

0
941


شرح نمو اور کھلی آنکھوں والے جھینگے
تحریر: محمد لقمان

اگلی صبح کراچی شہر کے مصروف ترین علاقے آئی آئی چندریگر روڈ پر واقع اسٹیٹ بینک آف پاکستان کے ہیڈ آفس پہنچے۔ پہلی دفعہ بینک دولت پاکستان آنے کا موقع ملا تھا۔ عمارت میں داخل ہوئے تو ایکسٹرنل ریلیشنز کے افسران نے استقبال کیا۔ پرانی طرز کی عمارت کی راہداریوں سے گذر تے ہوئے کانفرنس روم پہنچے۔ جہاں بتایا گیا کہ بینک کے ڈپٹی گورنر مختار نبی قریشی وفد کو بینک کی تاریخ اور اس کی ملکی معیشت میں کردار پر بریفنگ دیں گے۔ کچھ دیر کے بعد ڈپٹی گورنر صاحب کمرے میں داخل ہوئے اور سب کو خوش آمدید کہا۔ غیر ملکی صحافیوں کے لئے پاکستان کی معیشت میں اسٹیٹ بینک کے کردار کو جاننے کا ایک اہم موقع تھا۔ مختار نبی قریشی نے پاکستان کی شرح نمو سے بات شروع کی اور بتایا کہ کون سے عوامل کی وجہ سے ملکی ترقی سست روی کا شکا ر رہی ہے۔ بینکنگ کے نظام پر بھی خوب روشنی ڈالی۔ مالیاتی پالیسی اور ریپو ریٹ کے بارے میں سوالات کے جوابات دیے۔ تقریباً دو گھنٹے کی نشست کے بعد بینک کے مختلف حصوں میں لے جایا گیا۔ اتنی دیر میں لنچ کا وقت ہوگیا تھا۔ انواع و اقسام کے کھانوں میں جھینگے بھی موجود تھے۔ کریم کی ٹاپنگ والے جھینگے باولز میں پیش کیے گئے۔ میں نے کانٹے کی مدد سے جھینگوں کو کھانا شروع کیا تو مجھے ایسے لگا کہ ان کی آنکھیں میری طرف دیکھ رہی ہیں۔ یقیناً یہ میرا وہم تھا۔ مگر آنکھوں کے بارے سوچ سوچ کر متلی آنے لگی۔ میں فوری طور پر واش روم میں گیا ۔گلے میں انگلی ڈال کر قے کی اور یوں کھلی آنکھوں والے جھینگوں سے نجات حاصل کی۔ واپس کانفرنس روم میں آیا اور لنچ کیا۔ تقریباً چوبیس سال کے بعد بھی وہ کھلی آنکھوں والے جھینگے ذہن میں آتے ہیں تو اپنے آپ ہی ہنسی نکل جاتی ہے۔ لنچ کے فوری بعد پی آئی اے ہیڈ آفس کے لئے چل پڑے۔ کراچی کی پرانی ایرپورٹ پر واقع قومی ایرلائن کا ہیڈ آفس بائیس کلومیٹر دور تھا اور ایک گھنٹے میں پہنچا جاسکتا تھا۔ مگر اس دن ایسے لگا کہ سارا کراچی ہی آئی آئی چندریگر روڈ پر امڈ آیا تھا۔ کراچی شہر کے قدیمی علاقوں سے نکلنے میں ایک گھنٹے سے زیادہ وقت لگ گیا۔ پی آئی اے کے ہیڈ آفس تک پہنچنے میں دو گھنٹے سے زیادہ وقت لگ گیا۔ وہاں پہنچے تو ہمارے انتظار میں قومی ایرلائن کے حکام پریشان تھے۔ کسی ستم گر نے ان کو بتایا کہ جب پی آئی اے کی فلائٹ تاخیر کا شکار ہوتی ہے تو بھی ایسی ہی پریشانی ہوتی ہے۔ جس پر سب ہنسنے لگے۔ مینجر کارپوریٹ پلاننگ جنید صوفی، مینجر اکنامک پلاننگ کامران حسن اور مینجر فلیٹ پلاننگ رشید حسن نے کمپنی کے مختلف امور پر بریفنگ دی۔ عجیب بات ہے کہ اس وقت بھی پی آئی اے کے وہی مسائل تھے جو آج ہیں۔ سترہ نومبر انیس سو ستانوے کو بھی فلیٹ میں اضافے کا وعدہ کیا گیا۔ مگر کئی ادارے ایسے ہوتے ہیں جو اپنے ہی بوجھ تلے دب جاتے ہیں۔ ان میں پی آئی اے بھی شامل ہے۔ آج تو صورت حال مزید دگرگوں ہو چکی ہے۔ بریفنگ جیسی بھی تھی مگر ہائی ٹی بہت بہتر تھی۔ اس دن کا آخری پڑاو ایف پی سی سی آئی کا ہیڈ آفس تھا۔ لاہور چیمبر اور فیصل آباد چیمبر کی سرگرمیوں کو کئی سال کور کیا تھا۔ مگر چیمبرز کے وفاق میں پہلی مرتبہ آنے کا موقع ملا تھا۔ مجھے یاد ہے کہ اس وقت ایف پی سی سی آئی کے اعلی عہدیدار محمود احمد نے چیمبر کی سرگرمیوں پر بریفنگ دی۔ اور بتایا کہ ہر سال وفاقی بجٹ کی تیاری میں تاجروں کی کتنی سفارشات وفاقی حکومت کو جاتی ہیں مگر ان میں سے بہت کم کو ہی بجٹ کی حتمی دستاویز میں شامل کیا جاتا ہے۔ بہر حال ایک گھنٹے کی بریفنگ کے بعد ایف پی سی سی آئی سے نکلے اور اپنے ہوٹل ہالیڈے ان پہنچے۔ ڈنر کیا اور آرام کے لئے اپنے کمروں میں پہنچ گئے۔ حسب سابق بتایا گیا کہ اگلی صبح جلد بیدار ہونا ہے اور اٹھارہ نومبر کی پہلی منزل پاکستان کا سب سے بڑا ادارہ پاکستان اسٹیل مل تھی۔

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here