ايف بي آر کي طرف سے ٹيکس وصولي کے لئے گوداموں اور دکانوں پر چھاپوں کے خلاف تاجروں نے تحريک چلانے کا اعلان کرديا ہے۔ اس کي ابتدا لاہور چيمبر ميں ہفتے کے روز ايک مختصر مظاہرے سے ہوگئي ہے۔ تاجر رہنماوں نے ایف بی آر عملے کی جانب سے سیکشن 38اور 40-Bکے تحت صوابدیدی اختیارات کے ناجائز استعمال ،کاروباری برادري کو ہراساں کرنے کے عمل پر شدید احتجاج کرتے ہوئے چیئرمین ایف بی آر سے مطالبہ کیا ہے کہ وہ چھاپے نہ مارنے کے اپنے احکامات پر پوری طرح عمل درآمد کرائیں بصورت دیگر اپنے حقوق حاصل کرنے کے لیے تاجر ایف بی آر کے اسلام آباد سمیت تمام دفاتر کے سامنے مظاہروں اور کاروبار بند کرکے سڑکوں پر آنے سمیت کوئی بھی راستہ اختیار کریں گے۔ تاجر رہنماوں نے دعوي کيا کہ سینٹ کی سٹینڈنگ کمیٹی برائے فنانس چیئرمین ایف بی آر کی اجازت کے بغیر چھاپے نہ مارنے کے احکامات دے چکی ہے جبکہ چیئرمین ایف بی آر نے لاہور چیمبر کے دورہ کے موقع پر چھاپے نہ مارنے کا واضح اعلان کیا تھا لیکن ان کے احکامات کی دھجیاں اڑا دی گئی ہیں، نئے ٹیکس دہندگان تلاش کرنے کے بجائے موجودہ ٹیکس دہندگان کو بری طرح تنگ کیا جارہا ہے جو قابل برداشت نہیں، اگر چھاپے فوری طور پر نہ روکے گئے تو ایف بی آر ہیڈ آفس کے سامنے مظاہرہ کیا جائے گا۔ انہوں نے کہا کہ ایف بی آر ااہلکار اپنے صوابدیدی اختیارات کا انتہائی غلط استعمال کرتے ہوئے صنعتکاروں و تاجروں کو ناجائز مطالبات ماننے پر مجبور اور بصورت دیگر ان کا بدترین استحصال کررہے ہیں ۔انہوں نے کہا کہ کسی کمپنی کو ساکھ بنانے میں دہائیاں لگتی ہیں مگر ایف بی آر کے چھاپے ایک ہی دن میں ساری ساکھ مٹی میں ملادیتے ہیں ، ایسے اقدامات جس کی وجہ سے برآمدات پر بھی منفی اثرات مرتب کررہے ہیں۔ لاہور چيمبر کے عہديداروں نے کہا کہ ساری دنیا میں بلاواسطہ ٹیکسوں میں بتدریج کمی ہورہی ہے جبکہ پاکستان میں ساٹھ فیصد سے زیادہ ریونیو ان ہی سے اکٹھا کیا جارہا ہے حالانکہ ان کی وصولی پر ہونے والے اخراجات وصولیوں سے زیادہ ہیں۔ انہوں نے کہا کہ 2012-13ء سے لیکر 2015-16ء کے دوران محصولات کی وصولیوں میں تقریبا ساٹھ فیصد ضافہ ہوا لیکن اس عرصہ میں ٹیکس فائلر ز کی تعداد چودہ لاکھ سے کم ہوکر صرف نو لاکھ رہ گئی جو اس بات کا ثبوت ہے کہ ایف بی آر عملے کے صوابدیدی اختیارات کی وجہ سے پرانے ٹیکس دہندگان ٹیکس نیٹ سے باہر ہوتے جارہے ہیں اور تمام بوجھ موجودہ ٹیکس گزاروں پر منتقل ہورہا ہے، اگر یہی صورتحال رہی تو ایک خاص سطح پر آکر موجودہ ٹیکس نظام بالکل تباہ ہوجائے گا ۔