ریمنڈ ڈیوس کی پہلی پیشی

0
3679
Raymond Davis at Lahore Cantt court on January 29, 2011.

تحریر  محمد  لقمان

لاہور کے علاقے  مزنگ  میں دو نوجوانوں  کو  27 جنوری  2011 کو  ایک  امریکی شہری  ریمنڈ ایلن ڈیوس نے  فائرنگ  کرکے  قتل  کیا جبکہ  ایک نوجوان  قاتل کو بچانے کے لئے آنے والی گاڑی کے نیچے  آکر  جان سے ہاتھ  دھو بیٹھا تھا۔ قانون  کے مطابق ملزم  کو گرفتاری کے بعد 24  گھنٹوں کے اندر عدالت میں پیش  ہونا ہوتا ہے۔  29 جنوری کی صبح  لاہور کے ہر ٹی وی چینل  اور  اخبار  کو  یہ  فکر  لاحق ہوگئی تھی کہ  کہیں چھپ چھپا کر ہی  ریمنڈ ڈیوس کو عدالت  میں پیش  نہ کردیا جائے۔ اس لیے ہر کوئی کھوج میں  لگ گیا۔ پہلی  اطلاع یہ  تھی  کہ  امریکی قاتل کو ماڈل ٹاون کچہری مین پیش  جائے گا۔ سما کے کورٹ رپورٹر  شاہد حسین وہاں پہنچ گئے مگر  وہاں کوئی انتظامات نہ دیکھ کر کینٹ  کچہری میں بھی ایک رپورٹر بھیجنے کا فیصلہ کیا گیا۔ اس کے لئے قرعے  میں میرا  نام نکلا۔ میں  اور  کیمرہ  مین خاور محمود  کینٹ کچہری پہنچے تو وہاں پر بھی  کوئی آثار نظر نہیں  آ رہے تھے۔ ہم نے مختلف مجسٹريٹس کي عدالتوں کے ابھي دو چکر لگائے تھے کہ جوڈيشل مجسٹريٹ ظفر اقبال کي عدالت کے سامنے پوليس کي بھيڑ نظر آئي۔ پوچھنے پر پتہ چلا کہ ريمنڈ ڈيوس کو مجسٹريٹ کے سامنے پيش کرديا گيا ہے۔ کيمرہ مينوں کے علاوہ کسي کو بھي عدالت کے دروازے کے قريب بھي جانے نہيں جا رہا تھا۔ مجسٹريٹ کتنے دن کے  ريمانڈ پر ملزم کو پوليس کے حوالے کرتا ہے اس کے بارے ميں فوري معلومات کا سارا انحصار کيمرہ مين پر ہي تھا۔ يا ملزم کے کمرہ عدالت کے باہر آنے پر پراسکيوٹر جنرل سے پتہ چل سکتا تھا۔ کسي قسم کي تاخير ٹي وي صحافت ميں کسي طور درست نہيں ہوتي۔ جونہي مجسٹريٹ نے جسماني ريمانڈ کي بات کي تو خاور محمود نے مجھے انگليوں کے اشارے سے بتا ديا کہ 6 دن کا ريمانڈ ديا ہے۔ يوں خبر کو بريک کرنے ميں آساني ہوئي۔ پيشي کے بعد جب ريمنڈ ڈيوس کمرہ عدالت سے باہر آيا تو مجھ سميت اليکٹرانک اور پرنٹ ميڈيا کے صحافيوں کو پہلي اور آخري بار اس کو ديکھنے کا موقع ملا۔ چيک والي شرٹ والي تصوير جو اس وقت بھي گوگل سرچ پر ملتي ہے۔ اسي وقت بنائي گئي تھي۔ ريمنڈ ڈيوس کے چہرے پر کوئي کسي قسم کي پشيماني يا پريشاني نہيں تھي۔ مگر چہرے اور چال ڈھال سے ايک عجب سا گھمنڈ جھلکتا تھا۔اسے فوري طور پر ميڈيا سے دور لے جايا گيا ۔ تاہم ڈپٹي پراسکيوٹر جنرل رانا بختيار نے بتايا کہ انہوں نے 8 روز کا ريمانڈ مانگا تھا مگر عدالت نے 6 روز کا ريمانڈ ديا ہے۔ اب اس کو 3 فروري 2011 کو عدالت ميں پيش ہونا تھا۔ اس کے بعد ميڈيا کو کبھي بھي ريمنڈ ڈيوس کو ديکھنے کا موقع نہيں ملا اور آخري پيشي تو کوٹ لکھپت جيل ميں ہي ہوئي۔ اس کي رہائي کيسے ہوئي۔ کيسے افغانستان کے راستے امريکہ بھيجا گيا۔  پچھلے چھ سالوں ميں اس عمل پر سواليہ نشان اٹھتے ہي رہے ہيں۔ اس سلسلے ميں آدھا سچ تو 2011 ميں عوام تک پہہنچا تو اب آدھا سچ امريکي قاتل نے رہائي کے ساڑھے 6 سال بعد شائع ہونے والي کتاب ميں بيان کرديا ہے۔ ريمنڈ ڈيوس کي گرفتاري سے رہائي تک کا سفر پاکستاني قوم کے لئے ايک تلخ حقيقت ہے۔ مگر يہ سچ بھي ہے اور رسوائي کي بات بھي۔

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here