خار زار صحافت۔۔۔۔۔قسط ایک سو چودہ

0
620


خارجہ پالیسی یکسر بدل گئی
تحریر: محمد لقمان

یہ عملیت پسندی تھی یا کہ امریکی دھمکی کا اثر۔۔۔ نائن الیون کے بعد پاکستان کی خارجہ پالیسی میں ایک سو اسی ڈگری کی تبدیلی آگئی۔ وہی طالبان حکومت جس کو دنیا بھر میں صرف پاکستان نے تسلیم کر رکھا تھا۔ اب دہشت گرد ٹولہ نظر آنے لگا تھا۔۔ افغانستان کی صورت میں تزویری گہرائی کے نظریے میں بھی اب جان نہیں رہی تھی۔ جب امریکہ نے اکتوبر دو ہزار ایک میں افغانستان پر حملہ کیا تو پاکستان نے مغربی ممالک کے اتحاد کا پوری طرح ساتھ دینے کا فیصلہ کیا تھا۔ بعد میں بتایا گیا کہ یہ امریکی ڈپٹی سیکریٹری رچرٖ ڈ آرمیٹاج کی دھمکی تھی کہ پاکستان نے اگر امریکہ کا ساتھ نہ دیا تو اس کو پتھر کے دور میں واپس بھیج دیا جائے گا۔ اس کی وجہ سے ایسا کرنا پڑا۔ سابق فوجی حکمران جنرل پرویز مشرف نے اس مبینہ دھمکی کو بنیاد بنا کر پاکستان کی ایک نئی خارجہ پالیسی تشکیل دی۔ جس کے تحت امریکہ کو جیکب آباد مین شمسی ایر بیس سمیت متعدد سہولتیں دی گئیں۔ اس کے بدلے میں پاکستان میں امریکی امداد آنا شروع ہوگئی تھی۔ جس کو کولیشن سپورٹ فنڈ کا نام دیا گیا۔ مگر افغانستان پر امریکی حملے کے ٹھیک پانچ سال بعد رچرڈ آرمیٹاج نے ایک ٹی وی انٹرویو میں کہا کہ اس نے کبھی بھی بمباری کرکے پاکستان کو پتھر کے دور میں بھیجنے کی دھمکی نہیں تھی۔ مگر جنرل مشرف اس بیانیے پر قائم رہے اور اپنی خود نوشت، سب سے پہلے پاکستان، میں بھی اس کا تواتر سے ذکر کیا۔ پاکستان میں افغانستان کے سفیر ملا عبدالسلام ضعیف کو بڑے غیر سفارتی طریقے سے ا مریکہ کے حوالے کردیا گیا۔ اس کا پورا احوال سابق افغان سفیر نے اپنے کتاب مائی لائف ود طالبان ( گوانٹے نامو بے کی کہانی ) میں بھی بیان کیا ہے۔ افغانستان پر امریکی قبضے کے بعد سینکڑوں عرب ، پاکستانی اور افغان شہریوں کو کیوبا کے قریب واقع جزیرے میں جیل گوانٹے نامو بے میں منتقل کردیا گیا۔ بدلتے حالات کی وجہ سے اب مشرقی سرحدوں کی طرح مغربی سرحدوں پر بھی مشکلات کا آغاز ہو چکا تھا۔ افغانستان عسکریت پسندوں کے لئے امریکہ کے ساتھ ساتھ اب پاکستان بھی ایک دشمن تھا۔ عسکریت پسند امریکی اور مغربی ممالک کی طاقت ور افواج کے خلاف تو قبضے کے ابتدائی برسوں میں زیادہ مزاحمت نہیں دکھا سکتے تھے۔ اس لیے انہوں نے پاکستانی افواج اور شہریوں پر حملوں کو تیز کردیا۔ ایک بیگانی جنگ میں پاکستان کو جھونک دیا گیا تھا۔ اس کے اثرات دو دہائیوں کے بعد بھی پاکستان پر موجود ہیں۔ امن و امان کے مسائل کی وجہ سے پاکستانی معیشت کو اب تک ڈیڑھ سو ارب ڈالرز کے نقصانات ہو چکے ہیں۔ یہ ان ساٹھ سے ستر ہزار پاکستانیوں کی شہادت کے علاوہ ہیں جن کی زندگی کا کوئی نعم البدل نہیں۔ فرنٹ لائن اسٹیٹ کا رتبہ حاصل کرنے کے باوجود بھی پاکستان کو اس جنگ کی وجہ سے نقصانات زیادہ اور فوائد کم ہوئے۔ برآمدات کم ہوگئیں۔ پاکستانیوں کے لئے دیگر ممالک میں آنا جانا مشکل ہوگیا۔ جو پیسہ پاکستان میں آیا بھی ہوگا۔ اس کے ثمرات عام پاکستانی کو کبھی بھی نہیں مل سکے۔ البتہ بد امنی جو کہ پہلے جو صرف سرحدی علاقوں تک محدود تھی۔ وہ کراچی، لاہور ، اسلام ّباد ، کوئٹہ اور پشاور سمیت تمام بڑے چھوٹے شہروں میں آچکی تھی۔ دہشت گردی کے واقعات اس دور میں ملک کے ہر حصے میں ہوتے رہے۔ پاکستان کے برعکس ایران اور بھارت نے اپنے آپ کو اس جنگ سے کافی حد تک دور رکھا اور محفوظ رہے۔ کیا واقعی پاکستان کے پاس پرائی جنگ میں کودنے کے علاوہ کوئی چارہ نہیں تھا۔ اس پر عموماً دفاعی اور خارجہ امور کے ماہرین منقسم نظر آتے ہیں۔ ایک حکمران کے فیصلے نے پاکستان کی تاریخ کو یکسر بدل دیا تھا۔

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here