خار زار صحافت۔۔۔قسط ایک سو سولہ

0
690


پاک۔ بھارت تعلقات : سانپ سیڑھی کا کھیل

تحریر: محمد لقمان

برصغیر کی تقسیم سے اب تک ، پاکستان اور بھارت کے درمیان بہت کم مواقع پر تعلقات میں دوستانہ ماحول رہا ہے۔۔۔ انیس سو اڑتالیس میں جنگ کشمیر، انیس سو پینسٹھ اور انیس سو اکہتر میں فل سکیل جنگیں اور انیس سو ننانوے میں ہونے والی جنگ کارگل کے اثرات پوری پچھتر سالہ تاریخ پر نظر آتے ہیں۔ صرف چند مواقع ضرور نظر آتے ہیں جب دونوں ممالک نے دنیا کے دیگر ہمسایہ ملکوں کی طرح رہنے کی کوشش کی۔ پہلا موقع دو اپریل انیس سو پچاس کو بھارتی وزیر اعظم جواہر لال نہرو اور پاکستانی وزیر اعظم لیاقت علی خان کی دہلی میں ملاقات تھی۔ جس کے نتیجے میں لیاقت ۔ نہرو معاہدہ وجود میں آیا۔ اس معاہدے کے اہم نکات میں بر صغیر کی تقسیم کے وقت بچھڑنے والے خاندانوں کو ملانا، اغوا ہونے والی خواتین کی بازیابی اور دونوں ممالک میں رہنے والی اقلیتوں کا تحفظ تھا۔ اس کے علاوہ تقسیم کے وقت بھارت جانے والے ہندووں اور سکھوں اور پاکستان آنے والے مسلمانوں کو صرف ایک مرتبہ اپنے پرانے علاقوں میں جا کر اپنی جائیدادوں کو بیچنے یا ان کو ٹھکانے لگانے کا موقع دیا گیا تھا۔ اس کے بعد بڑا موقع کراچی میں ہونے والا سندھ طاس معاہدہ تھا جس پر یکم ستمبر انیس سو ساٹھ کو دستخط ہوئے۔ اس معاہدے کے تحت پاکستان اور بھارت کے درمیان دریاوں کے پانی کی تقسیم سے متعلقہ تنازعات کو ختم کرنا تھا۔ اس پر پاکستانی صدر جنرل محمد ایوب خان اور بھارتی وزیر اعظم جواہر لال نہرو نے دستخط کیے۔ انیس سو چھیاسٹھ کا معاہدہ تاشقند اور انیس سو بہتر کے شملہ معاہدے کو بھی اہم سنگ میل قرار دیا جاتا ہے۔ لیکن ماضی قریب میں فروری انیس سو ننانوے میں بھارتی وزیر اعظم اٹل بہاری واجپائی کا دورہ پاکستان اور معاہدہ لاہور پر دستخط بھی بڑی اہمیت کے ہیں۔ تاہم کارگل تنازعے نے امن کی ان کوششوں پر گہرے سائے ڈال دیے اور دونوں ملک دوبارہ امن سے جنگ کی طرف چل پڑے۔ جولائی دو ہزار ایک میں جنرل پرویز مشرف پاکستان کے صدر کی حیثیت میں دہلی گئے اور آگرہ میں ان کے بھارتی وزیر اعظم اٹل بہاری واجپائی سے مذاکرات ہوئے۔ مگر یہ بات چیت نہ جانے کیوں ناکام ہوئی اور اعلان آگرہ جاری نہ ہوسکا۔ تاہم اس ملاقات کی وجہ سے جنوبی ایشیا کی دو ایٹمی قوتوں کے درمیان تناو میں کافی کمی آئی اور دونوں طرف رہنے والی ایک ارب سے زائد مخلوق خد ا امن کی واپسی کے بارے میں پر امید ہو گئی۔ مگر یہ امیدیں بھی چند ماہ ہی برقرار رہ سکیں۔ تیرہ دسمبر دو ہزار ایک کو نئی دہلی میں بھارتی پارلیمنٹ پر حملہ ہوا۔ جس میں دہلی پولیس کے چھ کانسٹیبل، دو پیرا ملٹری سپاہی اور ایک مالی مارے گئے ۔ اور بھارت نے فوراً پاکستان کی دو جہادی تنظیموں۔۔۔۔لشکر طیبہ اور جیش محمد پر لگادیا اور حتی کہ پانچ حملہ آوروں کے نام بھی جاری کردیے۔ پاکستان نے بھارت کے خلاف اپنی سرزمین کے استعمال ہونے کے الزام کو مسترد کیا۔ مگر اس کے باوجود بھی بھارتی حکومت نے دنیا بھر میں پاکستان مخالف پراپیگنڈہ شروع کردیا۔ یہاں تک کہا گیا کہ جیسے امریکہ میں نائن الیون کا واقعہ ہوا ہے اسی طرح کا واقعہ بھارتی دارلحکومت میں کیا گیا ہے۔ بھارت نے مبینہ طور پر جیش محمد کے چار کارکنا ن کو گرفتار کرنے کا دعوی کیا۔ اور پاکستانی ہائی کمشنر اشرف جہانگیر قاضی کے ذریعے پاکستان سے جہادی تنظیموں کے خلاف کاروائی کا مطالبہ کیا۔ اس کے ساتھ ساتھ بھارت نے مقبوضہ کشمیر میں لائن آف کنٹرول اور پنجاب میں بین الاقوامی بارڈر کے ساتھ اپنی فوج کو پہنچا دیا۔ کہا جاتاہے کہ انیس سو اکہتر کی جنگ کے بعد سرحدوں پر بھارت نے پہلی مرتبہ اتنی بڑی تعداد میں فوج کو جمع کیا تھا۔ یوں دو ہزار ایک کا اختتام پاکستان اور بھارت کے درمیان تعلقات میں شدید تناو کی حالت میں ہوا۔

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here