خارزار صحافت۔۔۔۔قسط چھ

1
3835

لز ڈیوسٹ  اور مشاہد حسین سے کیا سیکھا

تحریر: محمد لقمان

موجودہ دور کے برعکس ماضی میں اے پی پی کے صحافیوں کی نیٹ ورکنگ بہت مضبوط ہوتی تھی۔ جب ہماری ٹریننگ کا شیڈول بنایا گیا تو انیس سو اسی اور نوے کی دہائیوں کے ممتاز ملکی اور غیرملکی صحافیوں کے لیکچرز بھی شامل کیے گئے۔ 1990 میں اسلام آباد میں بی بی سی کی نمائندہ لز ڈیوسٹ کا طوطی بولتا تھا۔ ایک دن لز ڈیوسٹ بھی اے پی پی کے ہیڈ آفس ہمیں صحافت کے گر سکھانے آگئیں۔ کینیڈین نژاد لز ڈیوسٹ کی اس وقت عمر 30 سے 32 سال ہوگی۔ بڑی خوشگوار شخصیت کی مالک تھیں۔ انہوں نے جہاں ہمیں بی بی سی میں صحافت کے اصولوں کے بارے میں بتایا وہیں بین الاقوامی خبر نگاری کے عناصر اور جزئیات پر بھی تفصیلاً بات کی۔ یقیناً انیس سو ستتر میں نئی دہلی میں مقیم مارک ٹلی جتنی تو وہ پاکستان میں مقبول نہیں تھیں۔ انیس سو ترانوے میں پاکستان سے واپس لندن چلی گئیں مگر بعد میں پاکستان میں بی بی سی کی نمائندگی کرنے والا ابھی تک کوئی صحافی لز ڈیوسٹ کا مقام حاصل نہیں کرسکا۔ جن مقامی صحافیوں نے دوران ٹریننگ ہمیں لیکچر دیے ، ان میں موجودہ سیاستدان اور اس دور کے سینیر آرٹیکل رائٹر مشاہد حسین سید شامل تھے۔ مشاہد حسین جو کہ اس زمانے میں دی مسلم  میں زیادہ تر لکھتے تھے، نے ایک بڑی گر کی بات بتائی جو کہ میں نے اب تک پلے باندھی ہوئی ہے کہ ایک خبر کے لئے اپنے سورس کو ذبح نہ کرو۔ الیکٹرونک میڈیا کے موجودہ دور میں تو سورس کو ذبح کرنا بڑا عام ہے۔ ایک بیپر کے لئے خبر کو کئی دفعہ اتنا توڑ مروڑ دیا جاتا ہے کہ جس سیاستدان یا ماہر کا آپ نے انٹرویو کیا ہوتا ہے وہ اپنی باتوں میں ہونے والی تحریف کی وجہ سے آپ سے دوبارہ بات کرنے کو تیار نہیں ہوتا۔ اے پی پی کی تربیت کے دوران سچائی کے رستے پر چلنے کا جذبہ پیدا کیا  گیا مگر پچھلے انتیس سال میں اس رستے پر کتنا چل سکے۔ پورے تیقین کے ساتھ نہیں کہہ سکتا۔

 بین الاقوامی خبر نگاری میں مشکلات کے بارے میں آگاہ کرنے کے لئے اسلام آباد میں اس دور کے وائس آف  امریکہ کے نمائندے عرفان غازی صاحب نے ایک پورا دن ہمارے لیے وقف کردیا۔ اسی طرح اسلام آباد کے انگریزی اخبار دی مسلم کے ایڈیٹر سید سلامت علی بھی ایک دن ہمیں

لیکچر دینے کے لئے آئے اور پاکستان میں انگریزی صحافت کے مستقبل کے بارے میں بتایا ۔

انگریزی اخبار ڈان کی آرٹیککل رائٹر انیس مرزا کے لیکچر کا ذکر نہ ہو تو یہ بھی  ایک زیادتی ہوگی۔ اس وقت بھی ان کی عمر 60 سال کے قریب تھی۔ بڑی خوشگوار شخصیت کی مالک تھیں۔ انگریزی میں خبر اور آرٹیکل کیسے لکھا جائے ۔ انہوں نے اس بارے میں ہم نو آموز صحافیوں کو خوب بتایا۔ گویا کہ ڈائریکٹر نیوز ایم آفتاب  ے نوزائدہ صحافیوں کی تربیت کے لئے ہر ممکن قدم اٹھایا تھا۔

یہ لیکچرز کتنے اہم تھے۔ اس کا اندازہ ہمیں آنے والے دنوں میں  ہوا ۔اے پی پی کی مینجمنٹ کو 1990 کے بیچ کے رپورٹرز کو کوئی اسائنمنٹ دیتے ہوئے کسی ھچکچاہٹ کا سامنا نہیں کرنا پڑا۔ اسی تربیت کے دوران ٹی جیز کو اسلام آباد میں رائٹرز نیوز ایجنسی کے دفتر میں بھی لے جایا گیا جہاں کلر فیکس کرنے کی ڈیمانسٹریشن دی گئی۔ آج سے تقریباً  انتیس سال پہلے یہ ایک بڑا دلچسپ تجربہ تھا۔

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here