حیدر آباد اور جامشورو کا سفر
تحریر: محمد لقمان
میں پہلی مرتبہ ملک کے سب سے بڑے شہرکراچی اکتوبر انیس سو اٹھاسی میں گیا تھا۔ فیصل آباد سے کراچی جانے والی ٹرین میں سفر کے دوران اندرون سندھ کے علاقوں کو دیکھنے کا موقع ملا۔ اس کے بعد بھی سترہ سال تک اپنی پیشہ ورانہ ذمہ داریوں کی وجہ سے مسلسل ہر سال کئی مرتبہ کراچی گیا مگر اندرون سندھ کے کسی شہر یا گاوں میں جانے کا اتفاق نہیں ہوا۔ دسمبر دو ہزار چار کے دوسرے یا تیسرے ہفتے معروف صنعتکار اقبال زیڈ احمد کی کمپنی سے ان دنوں منسلک عرفان احمد کھوکھر کا پیغام ملا کہ معیشت اور توانائی کے شعبوں کو کور کرنے والے لاہور کے صحافیوں کا ایک وفد ایل پی جی تیار کرنے والے کارخانے جامشورو جوایئنٹ وینچر لمیٹڈ کے مطالعاتی دورے کے لئے لے کر جارہے ہیں اور اس وفد میں مجھے بھی شمولیت کی دعوت دی گئی۔ سفر کے پروگرام کے مطابق تین جنوری کو پی آئی اے کی فلائٹ سے کراچی جانا تھا۔ اگلے روز جامشورو اور اس سے اگلے کراچی کی سیر اور واپسی تھی۔ مجھے تو سفر سے ہمیشہ ہی لگاو رہا ہے۔ میں نے فوراً ہاں کردی۔ اندرون سندھ کے علاقوں کو دیکھنے کا ایک نادر موقع مل رہا تھا۔ بہر حال تین جنوری کو لاہور کے علامہ اقبال ایرپورٹ پہنچے تو پتہ چلا کہ اخبارات اور اے پی پی سے تعلق رکھنے والے درجن کے قریب رپورٹرز کے ساتھ پی ٹی وی کے نمائندے کو بھی وفد میں شامل کیا تھا۔
اسی دورے میں معروف صنعتکار اور تاجر منظور الحق ملک جو کہ بعد ایف پی سی سی آئی کے ریجنل چیرمین بھی بنے ، سے پہلی ملاقات ہوئی۔ کراچی پہنچے تو اگلا سفر حیدر آباد کا تھا جو کہ سندھ کا دوسرا بڑا شہر ہے۔ یہ کراچی سے تقریباً ایک سو باسٹھ کلومیٹر دور ہے۔ سڑک کے ذریعے حیدر آباد پہنچے جہاں انڈس ھوٹل میں ٹھہرایا گیا جو کہ نیاز کرکٹ اسٹیڈیم کے عین سامنے ہے۔ انڈس ھوٹل اور کرکٹ اسٹیڈیم حیدر آباد کی مرکزی سڑک شاہراہ فاطمہ جناح جس کو ٹھنڈی سڑک بھی کہا جاتا ہے ، پر واقع ہیں۔ اپنے کمرے کی کھڑکی سے باہر کے مناظر دیکھنے لگا تو اسٹیڈیم کی گراونڈ واضح طور پر نظر آئی۔ اگلی صبح حیدر آباد سے پاکستان کے سب سے بڑے ایل پی جی ساز پلانٹ جامشورو جوانٹ وینچرلمیٹڈ جانا تھا ۔ جو کہ وہاں سے تقریباً بیس کلومیٹر سے بھی کم فاصلے پر واقع ہے۔ فیکٹری پہنچے تو پتہ چلا کہ جنگل میں منگل کیا گیا ہے۔ فیکٹری کے چاروں طرف باونڈری پر حفاظتی ٹاور بنائے گئے ہیں۔ چونکہ یہاں ایک زمانے میں امن و امان کی خراب صورت حال رہی تھی۔ اس لیے بہت بڑی تعداد اسلحہ بردار محافظ موجود تھے۔ جے جے وی ایل کی تین سو پینتالیس ملین مکعب فٹ قدرتی گیس کو ایل پی جی میں بدلنے کی صلاحیت ہے۔ اس پلانٹ کی ساری مشینری امریکی شہر ھوسٹن میں واقع ایکسٹرین سے خریدی گئی تھی۔ پاکستان جیسے ملک جہاں توانائی کا بحران کسی نہ کسی طور پر رہا ہے۔ ایل پی جی کی مقامی تیاری وہ بھی سستی قدرتی گیس سے ، کسی طور پر ایک نعمت سے کم نہیں تھی۔ صحافیوں کے لئے یہ پہلا موقع تھا کہ وہ ایک ایسی فیکٹری میں ایل پی جی کی تیاری اپنی آنکھوں سے دیکھ رہے تھے۔
پلانٹ کی انتظامیہ نے صحافیوں کا استقبال بڑے تپاک سے کیا۔ اس موقع پر دوپہر کے کھانے کے لیئے سندھی بریانی کا انتظام کیا گیا تھا۔ ایسی لذیذ بریانی میں نے پہلی مرتبہ کھائی تھی۔
( جاری ے)