خار زار صحافت۔۔۔قسط ایک سو تیس

0
534


مدینے کی سیر
تحریر: محمد لقمان

مدینہ منورہ میں ایک ہفتے کے قیام کے دوران مختلف مقامات کی زیارت کا موقع ملا۔۔۔سب سے پہلی زیارت تو مسجد نبوی کی ہی تھی۔ ہوٹل چونکہ مسجد کے عقب میں واقع تھا۔ اس لیے مختلف نمازوں کے درمیان وقفے میں اپنے ہوٹل میں جانا بہت آسان تھا۔ مسجد میں جگہ جگہ آب زم زم سے بھرے کولر نصب کیے گیئے ہیں۔ سنٹرلی ایرکنڈیشند ماحول کی وجہ سے کئی مرتبہ تو گرمیوں میں بھی سردی لگنے لگتی ے۔ نمازیوں کی سہولت کی جگہ جگہ ریکس میں مختلف زبانوں میں ترجمے کے ساتھ قرآن پاک ریکس میں سجائے ہوئے ہیں۔ انہی میں اردو، ہندی ، فرانسیسی، بنگلہ، ملائی، انڈونیشین بھاشا کے علاوہ بوسنیا اور دیگر چھوٹے چھوٹے ممالک کی زبانوں میں بھی قرآن کے نسخے دیکھنے کو ملے۔ روضہ رسول ، ریاض الجنہ اور منبر رسول کے علاوہ اصحاب صفہ کا چبوترہ بھی مسجد کے اہم مقامات میں شامل ہے۔ مسجد نبوی سے تھوڑے فاصلے پر ہی جنت البقیع ہے جو کہ مدینہ منورہ کا قبرستان ہے۔ اس میں ہزاروں صحابہ مدفون ہیں۔ جبل احد مسجد نبوی سے تقریباً پانچ کلومیٹر کے فاصلے پر ہے۔ اسی پہاڑ کے دامن میں سال تین ھجری میں جنگ احد ہوئی تھی۔ جس میں نبی اکرم زخمی ہوئے تھے جبکہ ستر صحابہ کرام شہید ہوئے۔ یہ سب شہدا اسی جگہ مدفون ہیں۔ جس کا احاطہ کردیا گیا ہے۔ جب ہم احد پہاڑ کے دامن میں گئے تو میں بڑی دیر تک احد کے قبرستان کی خار دار تاروں کے قریب کھڑا ہوکر ان صحابہ کرام کو یاد کرتا رہا جنہوں نے اسلام کی شروع کے دنوں میں اپنے خون سے آبیاری کی۔ مسجد قبا بھی مسجد نبوی سے تقریباً چار کلومیٹر کے فاصلے پر ہے۔ یہ مسلمانوں کی پہلی مسجد ہے۔ حضور اکرم مکہ مکرمہ سے ہجرت کرکے جب مدینہ منورہ تشریف لائے تو قبیلہ بن عوف کے پاس قیام فرمایا اور آپ نے صحابہکرامؓ کے ساتھ خود اپنے دست مبارک سے اس مسجد کی بنیاد رکھی۔ اس کے علاوہ مدینہ کی مساجد میں مسجد جمعہ، مسجد فتح ، مسجد قبلتین، مسجد ابی بن کعب وغیرہ شامل ہیں۔ زیارات کرتے ہویئے مدینہ میں ایک جگہ ریلوے اسٹیشن نما بلڈنگ نظر آئی تو پتہ چلا کہ یہ سلطنت عثمانیہ کے دور میں ٹرانس ریلوے کا مدینے کا ریلوے اسٹیشن تھا۔ جو اب ویران پڑا تھا۔ دو ہزار تین میں مدینے کا مکہ یا سعودی عرب کے دیگر مقامات سے ریلوے کے ذریعے کوئی رابطہ نہیں تھا۔ مگر دو ہزار اٹھارہ میں ہائی اسپیڈ حرمین ریلوے کی وجہ سے اب مدینہ کا مکہ اور دیگر مقامات سے لنک بن چکا ہے۔ مدینہ میں مکہ کی طرح شاپنگ کے لئے بہت سارے مقامات ہیں۔ جہاں الیکٹرونکس ، ملبوسات اور دیگر جدید اشیائے زندگی آسانی سے دستیاب ہیں۔ مدینہ کے ایک شاپنگ سنٹر میں اس وقت کی حکومت پنجاب کے مشیر برائے انسانی حقوق رانا اعجاز احمد خان سے ملاقات ہو گئی۔ جو کہ اپنے اہل خانہ کے ساتھ شاپنگ کر رہے تھے۔ پوچھا کہ کب سے سعودی عرب آئے ہوئے ہیں تو انہوں نے فرمایا کہ ایک عمرہ شمرہ کرن آیا ساں۔ مکے توں بعد مدینہ آگیا آں۔ ابھی بھی کئی مرتبہ مرحوم کا فقرہ یاد آتا ہے تو سارے مناظر سامنے آجاتے ہیں۔ اسی طرح ایک اور نوجوان سے مدینے کے بازار میں ملاقات ہوئی تو وہ بغل میں گولڈ لیف سگریٹ کا ڈنڈا نما پیک دبائے گھوم رہے تھے۔ یہ صاحب میرے ساتھ الائیڈ بینک کی آسان عمرہ سکیم کے تحت ہی پاکستان سے آئے تھے۔ ان سے پوچھا کہ مدینہ میں سگریٹ کو سرعام لے کر جانے کا کیا مقصد ہے۔ اس نے بتایا کہ یہاں پابندیوں کی وجہ سے سگریٹ کافی مہنگے داموں بک جاتے ہیں۔ اچھی قیمت مل گئی تو عمرے کا خرچہ نکل آئے گا۔ مطلب یہ ہر کام کے لئے کوئی نہ کوئی جواز ضرور ہوتا ہے۔ یہ کام ان دنوں زیادہ عجیب و غریب لگا جب سعودی عرب نے مکہ اور مدینہ کو ٹوباکو فری سٹی بنانے کے لئے جگہ جگہ بورڈ لگا رکھے تھے۔ خیر مدینہ میں قیام کے دوران نمازوں کے درمیانی وقفے کے دوران شاپنگ کا موقع مسلسل ملتا رہا۔ جس میں عزیز و اقارب کے لئے تحائف کے علاوہ کھجوروں کی مختلف اقسام خریدیں۔ کھجوروں میں عنبر اور مبروم کی اقسام کی کھجوریں نسبتا کم قیمت کی ہوتی ہیں اور اجوہ سب سے مہنگی۔ جیب کو مد نظر رکھتے ہوئے تھوڑی تھوڑی مقدار میں سب کچھ خریدنا پڑا۔ سائرہ ثمن جس کو پاکستان میں چھوڑ کر گئے تھے۔ اس کی فرمائیش پر بہت سارے کھلونوں کی شاپنگ بھی کرنا پڑی۔

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here