ظفر اللہ جمالی۔ بلوچستان سے پہلا وزیر اعظم
تحریر: محمد لقمان
یہ لاہور کے ایک فائیو اسٹار ہوٹل میں ایکسپورٹ پروموشن بیورو کے زیر اہتمام ایک تقریب تھی۔ جس میں پہلی مرتبہ میر ظفر اللہ جمالی کو بطور وزیر اعظم کور کرنے کا موقع ملا۔ تقریب کی کوریج کے لئے تمام کامرس رپورٹرز مدعو تھے۔ تقریب سے تقریباً ایک گھنٹہ پہلے ہی شرکا کو ہال میں بٹھا دیا گیا تھا۔ اچانک ایک دم سیکیورٹی پر معمور افراد چوکس ہو گئے۔ دیکھا کہ وزیر تجارت ھمایوں اختر خان اور وزارت تجارت کے سینیر افسران کے جلو میں میر ظفر اللہ جمالی ہال میں داخل ہو چکے تھے۔ سفید شلوار قمیض کے ساتھ ویسٹ کو ٹ پہنی ہوئی تھی۔ ان کے تقریبا دو سالہ دور حکومت میں ان کو ایسے ہی لباس میں دیکھا۔ خاص قسم کی داڑھی اور مونچھوں کی وجہ سے بظاہر وہ کسی طور پر نرم خو نہیں لگتے تھے۔ مگر حقیقت میں بہت صلح جو اور نرم مزاج تھے۔ ایک دفعہ ان کے ساتھ قصور جانے کا اتفاق ہوا۔ بابا بلھے شاہ کے مزار پر گئے ۔ وہاں انہوں نے فاتحہ خوانی کی۔ بعد میں قاف لیگ کے ایک مقامی رہنما کے ڈیرے پر لنچ کے لئے گئے تو ایک ویٹر سے پیپسی کولا سے بھرا ہوا ایک گلاس چھلک گیا۔ جس کے کچھ قطرے وزیر اعظم کے سفید لباس پر گرے۔ مگر مجال ہو کہ انہوں نے اس غریب کو کچھ کہا ہو۔ میں نے اپنے سرکاری میڈیا کے دور میں بہت چھوٹے بیوروکریٹس اور سیاستدانوں کو ایسے موقع پر چلاتے دیکھا ہے۔ مگر مرحوم ظفر اللہ جمالی نے ویٹر کی طرف ہنس کر دیکھا اور معاملہ ختم ہوگیا۔ دس اکتوبر دو ہزار دو کو ہونے والے انتخابات کے تقریباً ڈیڑھ ماہ کے بعد جنرل مشرف نے ان کو و زیر اعظم کے طور پر نامزد کیا۔ اور انہوں نے تئیس نومبر دو ہزار دو کو ملک کے تیرھویں وزیر اعظم کے طور پر حلف اٹھایا۔ ان کی کابینہ بھی بھان متی کا کنبہ نظر آتی تھی۔ کچھ مسلم لیگ ن کے منحرف ارکان تھے اور کچھ پیپلزپارٹی سے توڑے ہوئے افراد۔ اکیس رکنی کابینہ میں راو سکندر اقبال ( وزیر دفاع)، ھمایوں اختر خان ( تجارت)، زبیدہ جلال ( تعلیم)، سردار یار محمد رند ( خوراک و زراعت)، خورشید محمود قصوری ( وزیر خارجہ)، محمد نصیر خان (صحت)، لیاقت جتوئی ( صنعت و پیداوار) ، شیخ رشید احمد ( اطلاعات) ، مخدوم فیصل صالح حیات ( وزیر داخلہ)، سکندر حیات بوسن، حبیب اللہ وڑائچ اور رضا حیات ھراج شامل تھے۔ ان کے علاوہ کچھ مشیران بھی کابینہ کا حصہ تھے۔ جن میں سید شریف الدین پیرزاہ، شوکت عزیز ، نیلو فر بختیار اور سردار فتح علی عمرانی قابل ذکر تھے۔ ظفر اللہ جمالی بڑے منجھے ہوئے سیاستدان تھے۔ پیپلزپارٹی اور ن لیگ کا بھی حصہ رہ چکے تھے۔ بلوچستان کے وزیر اعلی اور وزیر کے طور پر بھی ذمہ داریاں ادا کی تھیں۔ جب میاں نواز شریف کی انیس سو ننانوے میں جنرل مشرف نے حکومت ختم کی تو وہ بھی دیگر رہنماوں کی طرح کنگز پارٹی یعنی قاف لیگ میں آگئے۔ چونکہ میاں اظہر کا پتہ کٹ چکا تھا۔ اس لیے ان کے لئے ایک موقع پیدا ہوگیا۔ دوسری وجہ جس کو عموماً سیاسی مبصرین بہت زیادہ وزن دیتے ہیں ، وہ ان کا بلوچستان سے تعلق تھا۔ ان دنوں جنرل مشرف کے بلوچستان کے قوم پرستوں کے ساتھ تعلقات خراب تھے۔ اس لیے انہوں نے حالات میں بہتری لانے کے لئے پاکستان کی تاریخ میں پہلی مرتبہ بلوچستان سے ملک کا وزیر اعظم مقرر کرنے کا فیصلہ کیا۔ لیکن ظفراللہ جمالی کو ان کے دور حکومت میں کبھی بھی آزادانہ کام کرنے کا موقع نہیں دیا۔ کبھی ان کو مشرف کی بات ماننی پڑتی تھی تو کبھی چوہدری شجاعت حسین کی۔ وہ سیاسی چکی کے دو پاٹوں میں آ چکے تھے۔