خار زار صحافت۔۔۔قسط ایک سو اکتیس

0
437


مدینہ میں آخری چند روز
تحریر: محمد لقمان
اللہ تعالی نے ہر انسان کا اپنے خاندان اور وطن سے بہت مضبوط رشتہ بنایا ہے۔۔ والدین ، بہن بھائی اور اولاد سے زیادہ دور نہیں رہا جاسکتا ۔جوں جوں پاکستان واپسی کا وقت قریب آرہا تھا۔ چھ سالہ بیٹی سائرہ کی یاد بھی زیادہ ستانا شروع ہوگئی تھی۔ اب دھن سوار تھی کہ مسجد نبوی میں ہر حال میں چالیس نمازیں پوری ہو جائیں۔کئی مرتبہ تو بیماری کے عالم میں بھی صبح سویر ے اٹھ کر تہجد کی نماز مسجد میں ادا کی۔ انہیں دنوں مدینہ میں ہمارے ہوٹل میں بھی چوری کی وارداتیں شروع ہو گئی تھیں۔ لاہور کے ایک ڈاکٹر صاحب اور ان کی بیگم کے کئی ہزار ریال ان کے کمرے سے ہی غایئب ہو گئے تھے۔ جس کا شک انہوں نے ملازمین پر کیا۔ اسی طرح کی شکایت ہوٹل کے دیگر مکین بھی کر رہے تھے۔ چوری کی وارداتوں سے ڈر کر میں نے پاسپورٹ کے علاوہ تما م ڈاکومنٹس اور پاکستانی اور سعودی کرنسی اپنے بیڈ کے فوم کے نیچے رکھ دی تھی۔ جو کہ چیک آوٹ ہونے کے وقت وہاں سے نکالنا بھول گیا ۔ کرنسی کے سوا تمام ڈاکومنٹس وطن واپسی کے کئی ہفتے بعد مل گئے۔ ۔ مدینہ سے رخصت کا وقت آیا تو آنکھیں آبدیدہ ہو گئیں۔ بس میں سوار ہوئے تو پیچھے مڑ کر مسجد نبوی کی طرف بار بار دیکھتے رہے۔ جب مسجد نبوی کے مینار آنکھوں سے اوجھل ہو گئے تو دل بوجھل ہو چکا تھا۔ بالآخر جدہ انٹرنیشل ایرپورٹ پہنچ گئے۔ اب مرحلہ سامان کی بکنک، بورڈنگ کارڈز کے حصول اور امیگرینش کاونٹر پر پاسپورٹ پر خروج کی مہر کا رہ گیا تھا۔ سعودی امیگریشن آفیسر کو چار پاسپورٹ دیے تو اس نے مہریں لگا کر واپس کردیے۔ ان پاسپورٹس کو کھول کر دیکھا تو چار میں سے تین پر خروج یا ایگزٹ کی مہر تھی۔ ایک پر وہ لگانا بھول گیا تھا۔ میں واپس کاونٹر پر گیا تو اس نے کئی مرتبہ لا لا کہا ۔ اس سے بڑی دیر تک بحث ہوتی رہی۔ مسئلہ زبان کا تھا۔ اس سے میں انگریزی میں اپنا مسئلہ بیان کرنے کی کوشش کر رہا تھا جبکہ جواب عربی زبان میں آ رہا تھا۔ جہاز کے ٹیک آف کا بھی وقت قریب آ رہا تھا۔ بالآخر شور شرابہ سن کر اس کا انچارج آگیا جو کہ انگریزی زبان سمجھتا تھا۔ میں نے اس سے اپنا مدعا بیان کیا تو اس نے مجھ سے معذرت کی اور پاسپورٹ کو اسٹیمپ کر وا دیا۔ مجھے اس واقعے پر اتنا دکھ ہوا کہ میں نے وہیں کھڑے ہو کر اللہ سے دعا مانگی کہ میں نے ایک مرتبہ اللہ کا گھر اور نبی کا روضہ دیکھ لیا ہے۔ میں دوبارہ سعودی عرب نہیں آنا چاہتا۔ میں آج بھی اپنی اس دعا پر نادم ہوں۔ خیر اللہ تعالی نے میری یہ دعا قبول نہیں کی اور میں نے سال دو ہزار آٹھ میں دوسری مرتبہ عمرہ اور دو ہزار دس میں حج کے لئے گیا۔ اللہ بڑا مہربان ہے۔ بالآخر جہاز میں سوار ہوئے اور چار ساڑھے گھنٹے میں لاہور کے ایرپورٹ پر پہنچ گئے۔ میرے بڑے بھائی اور دیگر افراد ایرپورٹ پر لینے کے لیئے آئے تھے۔ سب سے زیادہ خوشی سائرہ کو ہوئی تھی جس نے پندرہ دن ماں، باپ اور بھائی کے بغیر گذارے تھے۔ بہر حال گھر پہنچے۔ اور دنیا وی زندگی کا دوبارہ آغاز ہوگیا۔ میں ابھی بھی سوچتا ہوں کہ میرے پاس اس وقت اتنے مالی وسائل نہیں تھے۔ کہ میں عمرہ ادا کرسکتا۔ مگر اللہ نے میرے لیے وسائل پیدا کیے اور اپنے گھر کا دیدار کرایا۔

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here