خار زار صحافت۔۔۔قسط ایک سو اڑتالیس

0
143
At TUSDEC,Lahore, Pakistan


بے نام کو نامور بنانے کا مشن
تحریر: محمد لقمان
جب میں نے ٹیکنالوجی اپگریڈیشن اینڈ سکل ڈویلپمنٹ کمپنی (ٹسڈیک) میں کام شروع کیا تو اسٹیٹ سیمنٹ بلڈنگ کے ایک حصے پر نئی عمارت کی تعمیر جاری تھی۔ ڈھانچے میں بہت زیادہ تبدیلی نہیں کی جارہی تھی۔ یقیناً یہ ایک بہت بڑا چیلنج تھا۔ ابھی کمپنی سیکرٹری کا تقرر بھی نہیں ہوا تھا۔ چیف ایگزیٹو آفیسر کی پوسٹ کے لیئے انٹرویو جاری تھے۔ بالآخر ایک چارٹرڈ اکاونٹنٹ محمد عارف کچلو کمپنی سیکرٹری تعینات ہوگیئے۔ جبکہ چیف ایگزیکٹو آفیسر کے لیئے اس وقت کے صدر پاکستان جنرل پرویز مشرف کے قریبی رشتہ دار سہیل احمد کا انتخاب ہوگیا۔ جتنے عارف کچلو ہنس مکھ تھے تو اتنے ہی سہیل احمد تنک مزاج ثابت ہویئے۔ سہیل احمد کے انتخاب کے بارے میں مجھے سب سے پہلے میسج میڈیا مینجمنٹ کمپنی کے مالک سہیل عزیز نے بتایا ۔ ان کے سہیل احمد کے بارے میں تاثرات تھے ان کو ضبط تحریر میں لانا کافی مشکل ہے۔بہر حال سہیل عزیز نے جو سہیل احمد کے بارے میں فرمایا تھا۔ وہ اس سے کئی ہاتھ آگے ثابت ہوئے۔ مجھے کمپنی سیکرٹری کے بالکل سامنے ایک کیبن دے دیا گیا۔ جس میں ایک اچھا سا کمپیوٹر اور گھومنے والی ایگیزیکٹو چیئر موجود تھی۔ ایک ٹن کا اے سی چھوٹے سے کمرے کی فضا کو ہر وقت ٹنڈرا بنانے کے لئے کافی تھا۔ شروع کے دنوں میں اردو میں ٹائپنگ پر پورا عبور نہ ہونے کی وجہ سے مجھے لاہور چیمبر کے شعبہ تعلقات عامہ کے راشد یعقوب کی مدد لینی پڑی۔ جنہوں نے کئی مرتبہ پریس ریلیزز کو اردو میں ٹایئپ کرکے مجھے فیکس کرکے آسانی پیدا کردی۔ مجھے ان پیج سافٹ ویئر پر عبور حاصل تھا ۔ مگر میرے کمپنیوٹر میں یہ سافٹ ویئر نہیں تھا۔ ایڈمن اور آئی ٹی والوں سے بار بار درخواست کے بعد بالآخر یہ سافٹ ویر مل گیا۔ اب انگریزی اور اردو پریس ریلیزوں کو فیکس کرنا بڑا مسئلہ ہوتا تھا۔ انگریزی اخبار والون کو ای میل بھی کردیتا ۔ مگر اردو اخباروں کو ہر حال میں فیکس کرنا ضروری تھا۔ اس کے لئے مجھے ہر دفعہ چیرمین کے پرائیویٹ سیکرٹری اطہر فرید سے مدد لینا پڑتی۔ چیف ایگزیکٹو آفیسر سہیل احمد کے آنے کے بعد چیرمین الماس حیدر نے کافی سارے معاملات سے اپنے آپ کو الگ کر لیا تھا۔ سہیل احمد ضرورت سے زایئد ہی باریک بین تھے۔ اس لیے ایک پریس ریلیز کی منظوری میں کئی گھنٹے اور بعض دفعہ کئی دن بھی لگ جاتے تھے۔ ہر ملاقات میں وہ جنرل مشرف کے ساتھ اپنے رشتے کا ذکر ضرور کرتے۔ اور اپنے بچپن میں دہلی کی نہر والی حویلی کی یادیں تازہ کرتے رہتے۔ میرا نہیں خیال کہ وہ قیام پاکستان کے موقع پر شعور والی عمر میں ہوں گے۔ مگر یوپی اور دہلی کی روایات کے مطابق کئی مرتبہ بڑی بڑی چھوڑ دیتے تھے۔ جن کو بعد میں لپیٹنا بہت مشکل ہو جاتا۔ ٹسڈیک میں آنے سے پہلے وہ پاکستان کرکٹ بورڈ کی ویب سائٹ کو چلاتے تھے۔ اور اس سے پہلے وہ پیکو روڈ پر ایک الیکٹرونکس کی فیکٹری سے منسلک ہونے کا دعوی کرتے تھے۔ جاب کے ابتدائی دنوں میں میں نے ٹسڈیک کا نام گوگل کیا تو پتہ چلا کہ دنیا میں یا تو ٹسڈیک نامی ایک کیمیکل ہے یا ایک بھارتی ادویہ ساز کمپنی نے اس نام سے کھانسی کا ایک شربت بنا رکھا ہے۔ ایک بے نام چیز کو نامور بنانا یقیناً ایک بہت بڑا چیلنج تھا۔ گوگل پر میں نے پریس ریلیزز کو دنیا بھر میں عام کرنے کے لیئے کمپنیوں کو تلاش کیا تو ان کا معاوضہ کئی سو ڈالرز تھا۔ اسی تلاش میں البتہ پریس ریلیزز کی مفت تقسیم کے لئے ویب سایئٹس مل گیئیں۔ جن پر میں نے اپنے آپ کو رجسٹر کیا اور ہر پریس ریلیز کو ان ویب سایئٹس کے ذریعے دنیا بھر میں تقسیم کرنا شروع کردیا۔ دو تین مہینوں کے بعد گوگل کرنے پر پاکستان کی کمپنی ٹسڈیک بھی نظر آنا شروع ہوگئی تھی۔ آج میں سوچتا ہوں کہ اگر سال دو ہزار پانچ میں وٹس ایپ موجود ہوتی تو میری بہت ساری محنت بچ سکتی تھی۔ مگر وقت وقت کی بات ہوتی ہے۔

(جاری ہے)

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here