تم نے سوال کیوں پوچھا
تحریر: محمد لقمان
آنجہانی امریکی ناول نگار ھیرالڈ رابنز کے ناول پائریٹس ( بحری قذاق) کا مرکزی کردار ایک معمر عرب، بدر ال فے اپنی جوان سال امریکی بیوی جورڈانا سے کہتا ہے کہ وہ یہودیوں کے علاوہ کسی سے بھی دوستی رکھ سکتی ہے۔ پاکستان میں سرکاری میڈیا بھی تقریباً ہر دور میں ایسی ہی صورت حال سے دوچار رہا ہے۔ اس صورتحال میں وزارت اطلاعات تو بوڑھے عرب کے رول میں نظر آتا ہے جبکہ سرکاری میڈیا جورڈانا کی طرح پابندیوں کا شکار ہے۔ وہ اپوزیشن کی پگڑی تو اچھال سکتا ہے مگر سرکار کے بارے میں کچھ رپورٹ نہیں کرسکتا۔ نجی شعبے کے اخبارات اور ٹی وی چینلز تو سرکاری پریس کانفرنسز میں کوئی بھی سوال کرسکتے ہیں اور بعد میں اس کو کسی بھی زاویے سے چھاپ یا نشر کرسکتے ہیں۔ مگر سرکاری میڈیا کے صحافی پر ایک ان دیکھی سینسر شپ نافذ رہتی ہے۔ اے پی پی میں ملازمت کے دوران ایسی صورت حال کا ہر وقت سامنا رہتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ وفاقی وزرا خصوصاً وزیر اطلاعات کی پریس کانفرنسز کے دوران عام طور پر اے پی پی، ریڈیو اور پی ٹی وی کے رپورٹرز خاموش رہنا ہی پسند کرتے ہیں۔۔ کیونکہ اگر سرکاری میڈیا کے کسی نمائندے نے کوئی چبھتا ہوا یا آوٹ آف دی باکس سوال پوچھ لیا تو اس کی خیر نہیں۔ ایسی ہی صورت حال کا سامنا 2003 میں اے پی پی لاہور کے چیف رپورٹر سید فواد ہاشمی کو اس وقت کے وفاقی وزیر اطلاعات شیخ رشید احمد کی ایک پریس کانفرنس کو رپورٹ کرنے پر کرنا پڑا۔ اس پریس کانفرنس میں شیخ رشید نے الزام لگایا کہ جماعت اسلامی پاکستان کا تعلق مختلف دہشت گرد تنظیموں سے ہے اور دہشت گرد جماعت کے کارکنوں اور دفاتر میں پناہ لیتے ہیں۔۔ یہ خبر مختلف اخبارات میں چھپ گئی۔ جو کہ ان اخبارات کے رپورٹرز نے فائل کی تھی۔ اگرچہ اے پی پی کی اسٹوری واپس بھی لے لی گئی۔ مگر اس کے باوجود فواد ہاشمی جیسے قابل صحافی کو کئی ماہ تک نوکری سے معطل رہنا پڑا۔ اسی قسم کی صورت حال کا سامنا انیس سو ترانوے میں لاہور بیورو کے ایک اور رپورٹر فیاض چوہدری کو بھی کرنا پڑا۔ وہ بن بلائے مہمان کی طرح روزنامہ پاکستان کے اس زمانے کے رپورٹر نعیم اقبال کے ساتھ ایک شادی کی تقریب میں چلے گئے ۔ اس تقریب میں صدر غلام اسحاق خان بھی آئے ہوئے تھے۔ وہاں مساوات کے مرحوم صحافی راشد بٹ نے غلام اسحاق خان سے پوچھا کہ کیا وزیر اعظم نواز شریف کی حکومت صحیح چل رہی ہے تو صدر مملکت نے کہا کہ میں نے کب کہا کہ حکومت صحیح چل رہی ہے۔ یہ خبر فیاض چوہدری نے باقی میڈیا کی طرح رپورٹ کی ۔ باقی اخبارات پر تو حکومت کا زور نہیں چلا۔ مگر اے پی پی کے رپورٹر کی شامت آگئی اور کئی مہینوں تک انکوائری چلتی رہی کہ آخر بن بلائے شادی میں جانے کی کیا ضرورت تھی۔ اگر شادی میں چلے بھی گئے تو خبر باقی اخبارات کی طرح دینے کا کیا تک تھا۔ ایسی صورت حال میں کوئی بھی رپورٹر ایک محدود دائرے میں رہ کر ہی رپورٹنگ کرسکتا تھا۔ اس کا حل اے پی پی کی مینجمنٹ نے پرو۔ریف اسٹوری بھیجنے کی ہدایت کے ذریعے نکال لیا تھا۔ کوئی بھی حساس موضوع پر خبر ہوتی تو وہ پہلے اسلام آباد سینٹرل ڈیسک سے کلیر کروانے کے لئے بھیج دی جاتی۔ جو کہ عام طور پر پائجامے سے نکر بن کر واپس آتی تھی۔ اکثر اس میں سے کام کی باتیں نکال لی جاتیں اور ایک ہومیو پیتھک قسم کی خبر کلیر ہو کر واپس آجاتی۔ اپوزیشن کی کئی خبروں کے ساتھ تو اس سے برا ہوتا تھا۔ وہ یا تو کلیر ہو کر واپس ہی نہ آتیں یا ان کو بھیجنے سے منع کر دیا جاتا ۔ مخصوص مواقع پر خبر فائل کرنے کے بارے میں ہدایات بھی جاری کردی جاتیں۔ میری فیصل آباد کی پوسٹنگ کے دور کی بات ہے۔ نومبر انیس سو چھیانوے میں پاکستان کے پہلے نوبل ایوارڈ یافتہ سائنسدان ڈاکٹر عبدالسلام کی تدفین ربوہ میں ہوئی تو میرے ساتھ فیصل آباد اسٹیشن پر موجود رپورٹر ساجد علیم اس کی کوریج کے لئے گئے۔ مگر اسلام آباد سے ہدایات آئیں کہ خبر بہت زیادہ تفصیل سے نہیں ہونی چاہیے اور میت کی بجائے جسد خاکی کا لفظ استعمال کیا جائے۔
اے پی پی چونکہ ان دنوں وزارت اطلاعات کا باضابطہ طور پر حصہ نہیں سمجھی جاتی تھی اور 1961 کے انڈر ٹیکنگ آرڈیننس کے تحت چلائی جا رہی تھی ۔ اس کی وزیر اطلاعات کی نظر میں بہت زیادہ اہمیت نہیں ہوتی تھی۔ ایک دفعہ تو نواز شریف کے دوسرے دور حکومت کے وزیر اطلاعات مشاہد حسین سید اے پی پی ایمپلائز یونین سے ملاقات کے دوران متعدد مطالبات سنننے پر غصے میں آگئے۔۔ اور کہا کہ
میری وزارت میں اے پی پی کی حیثیت ایک نقطے سے زیادہ نہیں جب چاہوں اس کو مٹا ڈالوں۔ یہی وجہ تھی کہ پی آئی ڈی کا ایک جونیئر افسر یا رینکر بھی اے پی پی کے رپورٹرز پر حاوی ہونے کی کوشش کرتا تھا۔ یہ صورت حال صرف اے پی پی میں ہی نہیں تھی۔ پی ٹی وی اور ریڈیو کے رپورٹرز اور پروڈیوسرز کو بھی ایسی ہی صورت حال سے گذرنا پڑتا تھا۔ صحافتی تنظیموں کی طرف سے اے پی پی کو بھی فرانسیسی خبررساں ایجنسی اے ایف پی اور برطانوی ایجنسی رائٹرز کی طرح کی آزادی دینے کا مطالبہ کیا جاتا مگر اس سرکاری خبر رساں ایجنسی کی مالی حالت اتنی کبھی بھی بہتر نہیں ہوئی کہ اسے ایڈیٹوریل آزادی مل سکتی۔