خار زار صحافت۔۔۔قسط ایک سو انتیس

0
471


محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے شہر میں
تحریر: محمد لقمان

مکہ میں ایک ہفتہ گذرا تو تو مدینہ منورہ روانگی کا وقت آگیا۔۔۔صبح سویرے ہی ٹور آپریٹر کی بسیں ہوٹل کے باہر کھڑی ہو گئیں۔ ان کے ڈرائیور تو تھے عرب مگر کنڈکٹر پاکستانی تھے۔ جنہوں نے آتے ہی سب کو گاڑیوں میں سوار کرنے کے لیئے شور مچانا شروع کردیا۔ مکہ سے مدینہ تک فاصلہ ساڑھے چار سو کلومیٹر ہے جو کہ چار سے ساڑھے چار گھنٹے میں طے ہوجاتا ہے۔ اس زمانے تو صرف روڈ کے ذریعے ہی مکہ اور مدینہ کے درمیان سفر ہوتا تھا۔ حرمین ہائی اسپیڈ ریلوے سسٹم کا آغاز تو ستمبر دو ہزار اٹھارہ میں ہوا۔ جون کے مہینے میں سعودی عرب کے سخت گرم موسم میں سفر اتنا آسان نہیں تھا۔ بہر حال مکہ سے سفر کا آغاز ہوا۔۔ راستے میں بس وادی ستارہ میں روکی گئی ۔ وہاں پر ایک مسجد ہے۔ جہاں پر عموماً حجاج اور معتمرین سفر کے دوران نماز ادا کرنے کے علاوہ سڑک کنارے ڈھابہ نما ہوٹلوں سے کھانا بھی کھاتے ہیں۔ اس جگہ سے جہاں دکانداروں کو رزق ملتا ہے ۔ اس کے ساتھ ساتھ ستارہ وادی میں پائے جانے والے بندروں کے لئے بھی خوراک کا انتظام ہوجاتا ہے۔ کوئی ان کو روٹی ڈال دیتا ہے اور کوئی ان کو کوئی اور چیز کھلا دیتا ہے۔ خیر قصہ مختصر دوبارہ بس چلی تو دل میں ایک عجب سرور کی کیفیت تھی۔ کہ کب مدینہ میں داخل ہوتے ہیں اور رسول پاک صلی اللہ علیہ وسلم کے روضے پر حاضری ہوتی ہے۔مدینہ داخل ہوں تو آپ کا استقبال کھجوروں کے جھنڈ کرتے ہیں۔ اور یوں ساڑھے چودہ سو سال پہلے کے اس شہر کی یاد آجاتی ہے۔ جہاں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے زندگی گذاری تھی۔ سہہ پہر کے قریب مسجد نبوی کے عقب میں کمرشل مارکیٹ میں واقع ہوٹل میں پہنچا دیا گیا تھا۔ سامان رکھ کر ہم مسجد نبوی کی طرف چل پڑے۔۔۔مسجد کے وہ مینار نظر آرہے تھے۔ جن کو کئی دہائیوں سے اپنی آنکھوں اور ذہن میں چھپا رکھا تھا۔ روضہ حبیب پر جانے کی کتنے سالوں کی خواہش آج پوری ہونے جار ہی تھی۔ مردوں اور عورتوں کے لئے نماز کے لئے الگ الگ جگہیں ہیں۔ نماز عصر کی ادایگی کے بعد نبی اکرم کے روضے کی طرف چل پڑے۔ قطار میں لگ کر روضہ کی حدود میں داخلے کی اجازت ملتی ہے۔ مردوں کے لئے الگ اوقات ہیں اور عورتوں کے لئے الگ۔ اس زمانے میں عورتوں کے لئے اوقات تو ملکوں کے حساب سے بھی تھے۔ پاکستانی خواتین کے لئے الگ وقت تھا اور ایرانی اور دیگر خواتین کے لئے الگ۔ بہر طور، میں اور میرے سسر بارے آنے پر اس کوریڈور میں پہنچ گئے تھے۔ جو کہ روضہ رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف لے کر جاتا ہے۔ قطار میں آہستہ آہستہ سرکتے روضہ رسول تک پہنچ گئے۔ آنکھوں میں آنسو آچکے تھے۔ کئی منٹ تک وہاں کھڑے ہوکر درود پاک پڑتا رہا۔ روضہ مبارک کی حدود میں ہی حضرت ابوبکر اور حضرت عمر کی قبریں بھی ہیں۔ ان صحابہ کبار کی زندگی کو بھی خوب یاد کیا۔ بالآخر روضہ مبارک کے ارد گرد کھڑے اہلکاروں نے آگے جانے کو کہا تو رخصت ہونا پڑا۔ عجب سی کیفیت تھی۔ اس کے بعد ریاض الجنہ جانے کا موقع ملا۔ یہ: مسجد نبوی کا سب سے اہم حصہ وہ ہے جو روضہ اقدس اور منبر نبوی کے درمیان میں ہےَ، اس کے ستونوں پر سفید پتھر لگے ہوئے ہیں، اور ہرے پھولوں کا سفید قالین بچھا ہوا ہے۔اس کے بارے میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ: مرے گھر اور میرے منبر کے درمیان جنت کی کیاریوں میں سے ایک کیاری ہے۔ ریاض الجنہ میں بڑی مشکل سے نوافل کے لئے جگہ ملی۔ دو نوافل ادا کیے اور باہر مسجد کے صحن میں آگیا۔ میرے سسر بھی آچکے تھے۔ یہاں دھوپ سے بچاو کے لئے چھتری نما سایہ دان لگے ہوئے ہیں۔ جو کبھی کھلتی ہیں اور کبھی بند ہوتی ہیں۔ مسجد کے صحن میں اپنی اہلیہ اور ساس کو ڈھونڈا ۔ بیگم نے بتایا کہ روضہ رسول پر جانے کا اس وقت ایرانی خواتین کا وقت تھا۔ مگر انہوں نے اپنی ایرانیوں جیسے حلیے کی وجہ سے روضہ رسول کی زیارت کرلی تھی۔
( جاری ہے)

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here