خار زار صحافت۔۔۔قسط سو

0
1401


صحافتی زندگی کی پہلی فوجی حکومت
تحریر: محمد لقمان

بارہ اکتوبر انیس سو ننانوے کی سہہ پہر کو اے پی پی لاہور کے رپورٹرز روم میں بڑے سکون سے اپنے ساتھی رپورٹرز کے ساتھ گپ شپ میں مصروف تھا کہ اچانک ٹیلی پرنٹر سے نکلنے والی کریڈ پر نظر پڑی۔ اے پی پی ہیڈآفس نے ایوان وزیر اعظم کے حوالے سے خبر جاری کی تھی کہ چیف آف آرمی اسٹاف جنرل پرویز مشرف کو عہدے سے فارغ کردیا گیا تھا اور جنرل ضیاالدین بٹ پاکستان کے نئے سپہ سالار مقرر کر دیے گٗے تھے۔ کارگل کی جنگ کے بعد وزیر اعظم نواز شریف اور فوج کے سربراہ کے درمیان کشیدگی کا ماحول تو تھا۔ مگر اتنے انتہائی قدم کی کسی کو امید نہیں تھی۔ اس بارے میں بارہ اکتوبر سے چند روز قبل لاہور میں ایک انڈر پاس کے افتتاح کے موقع پر صحافیوں نے شہبا ز شریف سے سوال کیا تو انہوں نے کہا کہ سب کچھ ٹھیک ہے۔ کچھ نہیں ہونے والا۔ ٖ خاص طور پر اس وقت جب پرویز مشرف سری لنکا کے دورے کے بعد پاکستان واپس آ رہے تھے اور نواز شریف ملتان کے شجاع آباد میں ایک جلسے میں خطاب کے بعد اسلام آباد واپس آ چکے تھے۔ اس خبر کی عمومی طور پر کوئی زیادہ توقع نہیں تھی۔ نیوز روم میں اس خبر پر رد عمل بڑا منقسم تھا۔ کچھ لوگوں کا خیال تھا کہ جنرل جہانگیر کرامت کے واقعے کی طرح فوج اس برطرفی کو بھی پی جائے گی۔ مگر کئی دوستوں کی راٗے اس سے مختلف تھی۔ بہر حال پانچ بجے پی ٹی وی پر عربی زبان کی خبروں میں جنرل ضیا الدین بٹ کی تعیناتی کی خبر جاری کی گئی۔ مگر اس کے بعد ٹی وی اور ریڈیو کی نشریات مکمل بند ہو گٗیں۔ اے پی پی کے پرنٹر نے بھی کریڈ اگلنا بند کر دی تھی۔ اس زمانے میں الیکٹرونک میڈیا سرکار کا ہی تھا۔ شام کے اخبار کا بھی وقت گذر گیا تھا اور کسی اخبار نے ضمیمہ بھی جاری نہیں کیا۔ ابھی انٹرنیٹ بھی پاکستان میں نہیں آیا تھا۔ اس لئے کسی نے ٹویٹ بھی نہیں کیا تھا۔ اب معلومات کا سارا انحصار غیر ملکی میڈیا خصوصا ً بی بی سی پر تھا۔ ہمیں تو دو گھنٹوں کے بعد اسلام آباد کے دوستوں سے بدلی ہوئی صورت حال کا کافی پتہ چلا گیا۔ مگر عام عوام کو آٹھ بجے بی بی سی کی اردو سروس سے ہی پتہ چلا کہ فوج نے وزیر اعظم نواز شریف کی حکومت کو ختم کرکے اقتدار پر قبضہ کر لیا ہے۔ پاکستان میں فوجی حکومت کا قیام کوئی نئی چیز نہیں تھی۔ رات دس بجے کے قریب پی ٹی وی کی نشریات بحال ہوئیں۔ مگر اس سے بھی عوام کو نئی صورت حال کے بارے میں کچھ پتہ نہیں چلا۔ یہ تو جنرل پرویز مشرف کی رات گئے تین بجے کی پی ٹی وی پر تقریر تھی جس سے پتہ چلا کہ فوج نے کن بنیادوں پر سول حکومت اور وزیر اعظم کو فارغ کیا تھا۔ سب سے بڑا الزام تھا کہ کولمبو سے آنے والے جہاز جس میں پرویز مشرف سوار تھے۔ اس کو تباہ یا اغوا کرنے کی کوشش کی گئی۔ گویا کہ اس بار فوجی مداخلت کے لٗئے سول حکومت پر روائتی الزامات نہیں تھے۔ اس تقریر میں نہ ہی مارشل لا کے نفاذ کا اعلان کیا گیا اور نہ ہی پرویز مشرف نے اپنے لٗے کوئی عہدہ تجویز کیا۔ آنے والے دنوں میں جنرل پرویز مشرف نے اپنے لئے چیف ایگزیکٹو کا عہدہ چنا جو کہ کسی طور پر بھی اس سے پہلے کارپوریٹ سیکٹر کے علاوہ استعمال نہیں ہوتا تھا۔
جاری ہے۔

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here