خار زار صحافت۔۔۔قسط اکیاسی

    0
    1005


    ساحل سمندر اور روشنیوں کا شہر
    تحریر: محمد لقمان
    سولہ نومبر اتوار کے روز نو بجے صبح لاہور ایرپورٹ کے لئے روانہ ہوئے تو ہرفہ ان گیسٹ ہاوس کے بار ے میں پہلے سے موجود تاثر میں کافی بہتری آچکی تھی۔ پی آئی اے کی فلائٹ پی کے تین سو تین گیارہ بجے لاہور سے اڑی تو ایک بجے سے کچھ دیر پہلے کراچی کے جناح ٹرمینل پر اتر گئے۔اے پی پی کراچی کے بیورو چیف ظفر احمد اور دیگر سینیر صحافی ایرپورٹ پر موجود تھے۔ کوسٹرز میں بٹھا کر ہالی ڈے ان ہوٹل لے جایا گیا۔ بتایا گیا کہ کچھ دیر اپنے کمروں میں آرام کریں اس کے بعد لنچ کریں گے۔ لنچ پر سب اکٹھے ہوئے تو فیصلہ ہوا کہ ساحل سمندر چلتے ہیں۔ اسی دوران کچھ لوگوں نے کہا کہ اگر کلفٹن کے پلے لینڈ نہ گئے تو کیا مزا۔ پلے لینڈ پہنچ کر سب لوگوں نے اپنی اپنی مرضی کے جھولے لیے۔ میں اور عظیم احمد خان بھی ایک جھولے میں بیٹھ گئے۔ اچانک جھولا بہت بلندی پر پہنچا تو میرا دل جیسا بیٹھ گیا۔ پسینے آنے لگے۔ مجھے پہلی مرتبہ احساس ہوا کہ مجھے ایکرو فوبیا ہے۔ میں نے ہاتھ میں تصویریں بنانے کے لئے توشیکا کا ایک کیمرہ پکڑا ہوا تھا۔ جھولے کی پرواز کے دوران ایسے لگا کہ جیسے یہ میرے ہاتھ سے گر جائے گا۔ اللہ اللہ کرکے جھولے سے اترے تو میں نے طے کیا کہ کبھی بھی اونچائی تک لے جانے والے جھولے پر نہیں بیٹھوں گا۔ پچھلے چوبیس سال سے میں اس فیصلے پر قائم ہوں۔ کلفٹن پلے لینڈ سے نکلنے کے بعد ساحل سمندر پر پہنچے۔ ایک عجب سحر انگیز موسم تھا۔ کراچی کی سب سے بڑی خوبی ہے کہ یہ سردیوں میں بھی زیادہ سرد نہیں ہوتا۔ کہاں لاہور میں سرد موسم اور کہاں کراچی کا گلابی موسم۔ جب ساحل سمندر پر ہوائیں چل رہی ہوں تو اس کا اپنا ہی مزا ہوتا ہے۔ اس سرمستی میں اسلام آباد سے تعلق رکھنے والا ایک صحافی زیادہ ہی مست ہوگیا اور وسطی ایشیا سے آئی ہوئی ایک خاتون صحافی سے بہت زیادہ بے تکلف ہونے کی کوشش کی۔ وہ بھاگ کر میرے پاس آئی اور بچانے کا کہا۔ مستی میں آنے والے صحافی اور میرے جثے میں زمین آسمان کا فرق تھا۔ اس کے باوجود بھی میں ان دونوں کے درمیان کھڑا رہا۔ اس دوران باقی لوگ بھی آگئے۔ اس طرح ایک اے پی پی کی ورکشاپ بالکل آخری دنوں میں ایک برے واقعے سے بچ گئی۔ شکر ہے کہ یہ واقعہ ایم آفتا ب تک نہیں پہنچا ورنہ بہت ساروں کی نوکری تیل ہو جانی تھی۔ اس کے بعد خریداری کے لیئے زینب مارکیٹ گئے۔ پہلی مرتبہ پتہ چلا کہ اگر کوئی چیز سچ مچ خریدنی ہے اور ونڈو شاپنگ نہیں کرنی تو زینب مارکیٹ سے بہتر کوئی جگہ نہیں۔ کراچی شہر کا سیر سپاٹا ختم ہوا تو شام کو واپس ھالیڈے ان ہوٹل آگئے۔ دیکھا کہ ایک گلوکار بہت برے طریقے سے بھارتی گیت ذرا . تصویر سے نکل کے سامنے آ، میر ی محبوبہ. گارہا تھا۔ گانے کے دوران وہ عجب طریقے سے مسکراتا تھا۔ اس پر مرحوم اجمل خٹک کے بیٹے جمال خٹک جو کہ مترجم کے طور پر ہمارے ساتھ تھے، جھلاتے رہے۔ بار بار کہتے کہ گا بھی غلط رہا ہے اور مسکرا بھی رہا ہے۔ بہرحال ڈنر کے بعد اپنے کمروں میں جانے لگے تو بتایا گیا صبح سویر ے اسٹیٹ بینک جانا ہے۔ اس لیے جلد ی بیدار ہو کر ناشتا کر لیجیے گا۔

    LEAVE A REPLY

    Please enter your comment!
    Please enter your name here