تحرير: محمد لقمان
پاکستان کے انتہائي جنوب مغرب ميں واقع ساحلي شہر ، گوادر کو عالمي سطح پر اس وقت پہنچان ملي جب 1990 کي دہائي ميں يہاں ايک بين الاقوامي معيار کي بندرگاہ تعمير کرنے کا فيصلہ کيا گيا۔ گوادر بندرگاہ کي تعمير کا فيصلہ کئي دہائي پہلے ہوچکا تھا۔ تاہم اس کي تعمير کے لئے کام اکيسويں صدي کے آغاز ميں ہي شروع ہوسکا۔۔چين کي طرف سے فراہم کردہ 25 کروڑ ڈالرز ) 25 ارب روپے( کي مدد سے منصوبے کے پہلے مرحلےکي تکميل 2007 ميں ہوئي۔ پہلے مرحلے ميں چار برتھيں تعمير کي گئيں۔ عملي طور پر گوادر کي بندرگاہ سے افغانستان اور وسطي ايشيائي رياستوں کے لئے آسان اور سستا روٹَ دستياب ہوگا۔ چين کو اپني تجارت کے لئے اب بحيرہ جنوبي چين ، بحر الکاہل ، آبنائے ملاکا اور سري لنکا سے ہوتے ہوئے خليج فارس تک پہنچنے کے لئے دس ہزار کلوميٹر فاصلہ طے کرنے کي ضرورت نہيں رہے گي۔ اب پاکستاني علاقوں سے صرف ڈھائي ہزار کلوميٹر کا فاصلہ ہي طے کرنا پڑے گا۔ گوادر پورٹ کو 2007 ميں 40 سال کے لئے پورٹ آف سنگاپور اتھارٹي کے حوالے کيا گيا۔۔مگر 8 سال بعد ميں معاہدہ منسوخ کرکے ايک چيني کمپني کو مينجمنٹ دے دي گئي۔ بندرگاہ کي تعمير کے دوسرے مرحلے کا آغاز سال 2007 ميں ہوا اور اس پر ابھي تک کام جاري ہے۔ گوادر کي بندرگاہ کے ذريعےآزمائشي طور پر تجارت کا آغاز ہوچکا ہے اور کئي ٹرکوں کے کئي کاروان چيني صوبے سنکيانگ سے گوادر اور واپس گوادر سے سنکيانگ پہنچ چکے ہيں۔
قيام پاکستان کے موقع پر گوادر سلطنت اومان کا حصہ تھا۔ تاہم 1958 ميں پاکستان نے ايک کروڑ ڈالرز کے بدلے مسقط کے سلطان سے يہ علاقہ واپس لے ليا۔ گوادر کو تحصیل کا درجہ دے کر اسے ضلع مکران میں شامل کر دیا۔ یکم جولائی 1970کو جب ون یونٹ کا خاتمہ ہوا اور بلوچستان بھی ایک صوبے کی حیثیت اختیار کر گیا تو مکران کو بھی ضلعی اختیار مل گئے۔1977میں مکران کو ڈویژن کا درجہ دے دیا گیا اور یکم جولائی1977کو گوادر بھي ضلع بناديا گيا۔ پچھلے 40 سال ميں بلوچستان کے ديگر حصوں کي طرح گوادر ميں ترقي کا سفر بھي بہت سست رہا ہے۔ ايک لاکھ نفوس کي آبادي والے شہر ميں ترقي کا سفر تو اس وقت شروع ہوا جب کراچي اور بن قاسم کے بعد پاکستان کي تيسري بندرگاہ قائم کرنے کا فيصلہ کيا گيا۔ حکومتي منصوبوں کے مطابق مستقبل کا گوادر شہر کا علاقہ موجودہ پوری گوادر تحصیل کے برابر ہوگا۔ شہر کی بڑی سڑکیں 200فٹ چوڑی اور چار لین پر مشتمل ہو نگی۔ یہ سڑکیں نہ صرف ایشیاءبلکہ یورپ کے بہت سے ممالک کے شہروں سے بھی بڑی سڑکیں ہو نگی گوادر فری پورٹ نہیں بلکہ ٹیکس فری زون شہر ہو گا۔گوادر شہر مستقبل میں ایک بین الاقوامی شہر کی حیثیت اختیار کر جائے گا۔گوادر بندرگاہ پاکستان کے علاوہ چین، افغانستان، وسط ایشیاء کے ممالک تاجکستان، قازقستان، آذربائیجان، ازبکستان، ترکمانستان اور دیگر روسی ریاستوں کے استعمال میں آئے گی جس سے پاکستان کو بیش بہا محصول ملے گا۔بندر گاہ خلیج فارس، بحیرہ عرب، بحر ہند، خلیج بنگال اور اسی سمندری پٹی میں واقع تمام بندرگاہوں سے زیادہ گہری بندر گاہ ہو گی اور اس میں بڑے بڑے کارگو بحری جہاز باآسانی لنگر انداز ہو سکیں گے۔ جن میں ڈھائی لاکھ ٹن وزنی جہاز تک شامل ہیں۔ گوادر کو ملک کے ديگر حصوں اور ہمسايہ ممالک سے ملانے کے لئے بین الاقوامی معیار کی سڑکیں بنوائی جا رہی ہیں مثلاً M8 کی تعمیر پر کام شروع ہو چکا ہے جو تقریبا 892 کلو میٹر طویل موٹروے ہوگی جو گوادر کو تربت، آواران، خزدار اور رٹوڈیرو سے ملائے گی جو پھر ایم 7، ایم 6 اور انڈس ہائی وے کے ذریعے گوادر کا چین کے ساتھ زمینی راستہ قائم کرنے میں مددگار ثابت ہو گی۔ اسکے علاوہ گوادر کو ایران اور افغانستان کے ساتھ ملانے کیلئے بھی سڑکوں کا جال بچھایا جا رہا ہے۔ چين پاکستان اقتصادي راہداري منصوبے کے آغاز کے بعد گوادر بندرگاہ منصوبے کي مزيد اہميت بڑھ گئي ہے۔ اسے اب 47 ارب ڈالرز کے پاک۔چين منصوبے کا دل سمجھا جاتا ہے۔ کيونکہ ايک چين سے آنے والا تمام تجارتي مال گوادر کے راستے ہي دنيا کے ديگر حصوں ميں جاسکے گا۔ گوادر کي بندرگاہ کے قيام سے ممبئي سے دبئي تک متعدد بندرگاہوں پر کام متاثر ہونے کا خدشہ پيدا ہوگيا ہے۔۔يہي وجہ ہے کہ خطے کے کئي ممالک اس کي کھلے اور چھپ کر مخالفت کر رہے ہيں۔ سب سے زيادہ مخالفت پاکستان کے ديرينہ حريف بھارت کي طرف سے آئي ہے۔ جس نے ايراني بندرگاہ چاہ بہار کي تعمير کے لئے کروڑوں ڈالرز کي سرمايہ کاري شروع کردي ہے۔ چاہ بہار گوادر سے صرف سو کلوميٹر دور واقع ہے۔ گوادر پورٹ کو ناکام بنانے کیلئے بھارت ایران کیساتھ چابہار کو فعال بنانے میں جت گیا ہے۔ سی پیک کی افادیت کو کم کرنے کیلئے بھارت نے افغانستان اور ایران کیساتھ ملکر نئی راہداری تعمیر کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔ سی پیک کے مقابلے میں وسطي ایشیائی ریاستوں کو ایرانی بندرگاہ کے راستے دنیا بھر سے تجارتی طور پر ملایا جائیگا. راہداری کی تعمیر کیلئے بھارت تقریبا پانچ سو کروڑ روپے افغانستان کو دے گا، جس کی مدد سے یہ نیا منصوبہ دو سال کے کم عرصے میں مکمل کرلیا جائیگا۔ بھارت کو فکر ہے کہ جب یہ بندرگاہ مکمل ہوجائے گی تو آبنائے ہرمز کے قریب ہونے کی وجہ سے یہاں خلیج عرب کی جانب سے پاکستان کے ذریعے مشرقی چین کے لیے توانائي اور تجارت کا ایک نیا دروازہ کھل جائے گا، اور ہوسکتا ہے کہ چینی بحریہ بھی اس پورٹ کو استعمال کرے۔ گوادر کے علاوہ چین ديگر ممالک بشمول سري لنکا اور بنگلاديش ميں بندرگاہوں کی تعمیر کے لیے بھی فنڈفراہم کررہا ہے۔ يہي وجہ ہے کہ بھارت اس منصوبے کي ايڑي چوٹي کي مخالفت کر رہا ہے۔