مہاتیر کے دیس میں ۔۔۔۔قسط انیس

0
3300

تحریر: محمد لقمان

سائم ڈربی ریسرچ اسٹیشن

  • ملائشیا کے کیری آئی لینڈ کی بات ہو تو آئل پام پر صنعتی گروپ سائم ڈربی کی تحقیق کا ذکر کیوں نہ ہو۔ جزیرہ نما ملایا میں آئل پام کے جنگلات کی بنیاد رکھنے سے پہلے برطانیہ سے تعلق رکھنے والے سرمایہ داروں ۔۔۔الیگزینڈر گوتھری،  ڈینیل، اسمتھ ہیریسن ، جوزف کراسفیلڈ ، ھینری ڈی ایسٹیر اور ہربرٹ مٹفورڈ ڈربی نے تقریبا ً ایک صدی پہلے قدرتی ربڑ کے جنگلات اگائے۔ تاہم بعد میں پام آئل کی دنیا میں مانگ بڑھنے کے بعد سارا کاروبار ہی آئل پام کے شعبے کی طرف منتقل کردیا۔ ان یورپی سرمایہ کاروں کی قائم کردہ تین کمپنیوں کا 2007 میں ادغام ہوگیا اور اب صرف سائم ڈربی گروپ ہی آئل پام سمیت مختلف شعبوں میں غالب نظر آتا ہے۔اب بھی ملائشیا کے کئی علاقوں خصوصاً تفریحی مقام لنگکاوی میں قدرتی ربڑ کے درخت مل جاتے ہیں۔ مگر کیری آئی لینڈ سمیت ہر جگہ اب آئل پام کے درخت ہی کثرت سے نظرآئیں گے ۔ کیری آئی لینڈ پر جائیں تو آئل پام پر تحقیق کے لئے قائم ریسرچ اسٹیشن جائے بغیر پام آئل کی صنعت کو سمجھنا ممکن نہیں۔ تحقیقات کے لئے سائم ڈربی نے 11 ہزار ھیکٹرز سے زیادہ رقبے پر جہاں جنگلات اگا ئے ہیں تو وہیں پام آئل کی کرشنگ اور ریفائننگ کے لئے ملیں بھی قائم کی ہوئی  ہیں۔ بائیو ڈیزل پلانٹ بھی موجود ہے جہاں گاڑیوں کے لئے ایندھن تیار کیا جاتا ہے۔  سائم ڈربی ریسرچ اسٹیشن پہنچے تو ملائشیا کی پام آئل کی صنعت پر بریفنگ دی گئی۔  تامل النسل چیف ریسرچ آفیسر ڈاکٹر کرشنا کلاویرا سنگم نے بتایا کہ آئل پام کا درخت ملائشیا کا مقامی درخت نہیں۔  افریقی نسل کے اس پودے کو برطانوی آباد کاروں نے ملایا میں متعارف کرایا۔ ڈیورا قسم کا درخت پہلے صرف  افریقہ میں اگتا تھا۔  جو کہ بعد میں جنوب مشرقی ایشیا میں متعارف کروایا گیا۔ اب ایک صدی کے بعد آئل پام کی دیگر اقسام بھی تیار کرلی گئی ہیں۔ اب ملائشیا کے مختلف علاقوں میں ڈیورا کے علاوہ پسی فرا اور اور ٹینیرہ اقبسام بھی کاشت کی جاتی ہیں۔  ماحولیاتی تبدیلیوں کی وجہ سے آئل پام کی پیداوار متاثر ہوئی ہے۔ اس کا حل بائیو ٹیکنالوجی کے استعمال سے نکالنے کوشش کی جارہی ہے۔ ریسرچ اسٹیشن میں مختلف لیبارٹریز بھی ہیں۔ آئل پام کے ساتھ ساتھ قدرتی ربڑ کی لیبارٹری بھی موجود ہے جہاں ربڑ کے مختلف خواص کو جانچا جاتا ہے۔ ربڑ کے ماہرین کے مطابق اب قدرتی ربڑ کا استعمال چند شعبوں تک ہی محدود رہ گیا ہے۔ ان میں سرجری کے لئے دستانے اور مانع حمل اشیا شامل ہیں۔  اگر پام آئل کی بات کی جائے تو اس کا استعمال بھی صرف خوردنی تیل کے طور پر ہی نہیں ہوتا۔ بلکہ اس کا استعمال مختلف صنعتی شعبوں میں بھی ہوتا ہے۔ جس میں مارجرین ، مٹھائیوں اور چاکلیٹس کی تیاری شامل ہیں۔ یہاں تک کہ میک اپ کے سامان اور صابن کے شعبوں میں میں پام آئل کے کئی اجزا استعمال ہوجاتے ہیں۔ آئل پام درخت کے خشک پتے بطور کھاد  استعمال ہو سکتے ہیں۔ گویا کہ آئل پام کا درخت ملائشیا اور انڈونیشا  کے لئے وہی حیثیت رکھتا ہے جو پاکستان کی معیشت کے لئے کپاس کی ہے۔

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here