مہاتیر کے دیس میں۔۔۔۔قسط پندرہ

0
2813

تحریر: محمد لقمان

کوالالمپور: گاوں سے شہر کیسے بنا ۔۔۔۔۔۲۔۔۔۔۔۔

انیس سو تریسٹھ میں  جب سنگاپور  نے ملائشیا سے علیحدگی اختیار کی  تو کوالالمپور  ہی  نئے ملائشیا  کا دارالحکومت رہا۔ 1974 میں کوالالمپور کو ریاست سیلانگور  سے الگ کرکے وفاقی علاقے کا درجہ دے دیا گیا اور بلدیاتی طور  پر ایک شہر قرار پایا۔ بعد میں شاہ عالم کو ریاست  کا دارالحکومت بنا دیا گیا۔ یوں کوالالمپور کےشہر کی عالمی سطح پر پہنچان کا سلسلہ شروع ہوا۔ سب سے زیادہ ترقی  1980 اور  1990 کی دہائی میں ہوئِی۔ پیٹروناس کی تعمیر کے بعد بھی ترقی کا سفر جاری رہا۔ اس وقت  کوالالمپور  جنوب مشرقی ایشیا کا ہی  ، پورے ایشیا  عروس البلاد سمجھا جاتا ہے۔ کوالالمپور میں موجود خوشحالی کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ آپ کو کہیں بھی کوئی گداگر نہیں نظر آئَے گا  اس کے برعکس  پاکستان ، بھارت اور بنگلادیش کے بڑے چھوٹے شہروں میں فقیروں کے غول در غول نظر آتے ہیں ۔ سینکڑوں کی تعداد میں فلک بوس عمارتیں اور وسیع و عریض سڑکیں اس کے دو سو سالہ فن تعمیر کو  چار چاند لگاتی ہیں۔ امن و امان کی صورت حال اتنی بہتر ہے کہ رات کے وقت بھی  شہر کے مختلف علاقوں میں غیر ملکی اور مقامی سیاح کثرت سے گھومتے پھرتے ہیں۔ پولیس  کے بہت اہلکار گشت کرتے ملتے ہیں۔ مگر اس کے باوجود  بھی قانون کی حکمرانی ہے ۔ یورپی ممالک کے بڑے شہروں کی طرح کوالالمپور بھی پوری رات روشنی میں نہایا رہتا ہے۔ اس کے برعکس  لاہور کے مال روڈ اور ایم ایم عالم روڈ پر  ایسے کئِ مقامات ہیں جہاں رات کو کم روشنی ہونے کی وجہ سے گذرتے ہوئے ڈر لگتا ہے کہ کہیں کوئی لوٹ ہی نہ لے۔ زیادہ تر ملائی نسل کی مسلمان خواتین حجاب کرتی ہیں۔ مگر اس کے باوجود بھی وہ تعلیم اور سرکاری عہدوں میں میں کسی سے پیچھے نہیں۔ نسلی تعصب نہ ہونے کی وجہ سے سیاحوں کے ساتھ کوئی بھی امتیازی سلوک نہیں کرتا۔ ٹیکسی ڈرائِیورز کا رویہ عموماً بہت اچھا ہوتا ہے۔ کوالالمپورتو  ایک بڑا شہر ہے چاہے آپ سنگاپور کے قریب واقع  ملائشیا کے انتہائی جنوبی علاقے جوہر باہرو میں ہوں یا انتہائی شمال میں تفریحی لنگکاوی میں، آپ کو ایک ہی ظرح کا آرام اور تحفظ ملتا ہے۔ گویا ملائشیا ٹرولی ایشیا کو جو نعرہ 1980 کی دہائی میں لگایا گیا اس کے اثرات پورے ملک خصوصا کوالالمپور میں نظر آتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ ربڑ اور پام آئل کے علاوہ کوئی سیکٹر  اگر  ملائشیا کی معیشت کو سہارا دیتا ہے  تو وہ سیاحت ہے۔ پاکستان میں اونچے اونچے پہاڑ بھی ہیں۔ بڑے دریا اور ریگستان بھی۔  مگر ہمارا  تمام تر بہتر جغرافیہ اور موسمیاتی حالات سیاحوں کو اپنی طرح نہیں کھینچتے کیونکہ نہ تو ہم نے مقامی لوگوں کی کوئی تربیت کی ہے اور نہ ہی امن و امان کی صورت حال بہتر ہوئی ہے۔ نائن الیون کے بعد  کے واقعات نے تو پاکستان کو غیر ملکیوں کی نظر میں خوفناک جگہ بنا دیا تھا۔ اگر ہمارے ملک میں امن و عامہ کی صورت حال بہتر ہوجائے تو ملائشیا سے کہیں زیادہ سیاح آسکتے ہیں۔

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here