منہ کھائے ، آنکھ شرمائے

0
2400

تحرير محمد لقمان
تاريخی روايت ہے کہ قرون وسطی کے ايک بادشاہ کو علم دوستی کا شوق چرايا ۔اس نےاعلان کرديا کہ جو بھی اہل علم کتاب لکھے گا اس کو کتاب کے وزن کے برابر سونا ديا جائے گا۔ اعلان کے بعد ابتدائی دنوں ميں تو بڑے معيار اور اچھوتے موضوعات پر کتابيں آتی رہيں۔ جوں جوں وقت گذرا کتابوں کا معيار کم اور وزن زيادہ ہوتا گيا۔ ايک دن کتابوں کے بدلے سونا دينے والے شخص نے بادشاہ کو اس معاملے سے آگاہ کيا تو جواب ملا کہ ان کو مصروف رکھو،ورنہ وہ ارد گرد ديکھنا شروع ہو جائيں گے ۔
پيٹ کے راستے اہل علم اور عوام ميں اثرورسوخ کے حامل افراد کو تسخير کرنے کی کوششيں ہر دور ميں ہوئی ہيں ۔ کبھی کسی کو ڈيزل کا پرمٹ اور ايل پی جی کا کوٹہ دے کر خريدا گيا تو کبھی لکھاريوں کو سينٹرز اور پھر وزراء بنا کرکے رام کيا گيا۔ اگر کوئی زيادہ تنگ کرنے کی حيثيت ميں ہوجائے تو بيرون ملک سفير بھی بنايا جاسکتا ہے۔ کوئی پارليمنٹ کے اندر يا باہر تنگ کرے تو اس کو وزير اعظم يا وزير اعلی کا مشير بنادو۔ کسی سرکاری نشرياتی ادارے کا سربراہ مقرر کرنا بھی آسان عمل ہے ۔ کوئی قانع مزاج ہو تو اسے کسی سرکاری ادارے کا ترجمان بنا ديں۔ آزمائش شرط ہے ۔
بقول شاعر
ہوسِ لقمہء تر کھا گئی لہجے کا جلال
اب کسی حرف کو حُرمت نہيں ملنے والی
مرزا غالب جیسےنابغہ ء روزگارشاعر بھی وظيفہ خوری کی وجہ سے پوری زندگی سرکار انگلشيہ کے گن گاتے رہے۔اگر پچھلے ساٹھ ستر سال کی تاريخ ميں سرکار کی طرف سے پلاٹ لينے والوں کی فہرست پر نظر ڈالی جائے تو قلم کار قبيلے کے بہت سارے سرخيلوں کو درجن درجن پلاٹس ملے ہيں۔اس کے علاوہ ہر دور ميں حکمرانوں کے گرد کاسہ ليسوں کا بھی ايک مخصوص ٹولہ رہا ہے ۔ جن پر جب تک سرکارکی مہربانی کا سايہ رہا انہوں نے پورا ساتھ ديا ۔ جونہی حکمرانوں نے آنکھيں پھيريں انہوں نے آزادی اظہار کا ہتھيار دوبارہ تھام ليا۔ حکمرانوں اور ايسے عناصر کے درميان طلاق اور رجوع کرنے کا عمل وقفے وقفے سے جاری رہتا ہے ۔
مال و دولت کی ہوس کے مارے لوگوں کے ہجوم ميں ايسے سرپھرے بھی نظر آجاتے ہيں، جن کو روپے پيسے کا لالچ نہيں ہوتا اور غربت اور گمنامی کی سولی پر چڑھ کر پوری زندگی گذار ديتے ہيں۔ روپے پيسے کا دوراس وقت ختم ہوگا جب ترقی يافتہ ممالک کی طرح پاکستانی بھی اخلاقی بلنديوں پر پہنچيں گے۔ اس وقت نہ آموں کی ٹوکری کام کرے گی اور نہ ہی روپوں سے بھرا سوٹ کيس يا لفافہ۔ ہر شخص حق کے ساتھ ہوگا تو برائی کے خلاف۔ پاکستان کے معروضی حالات ميں يہ چيزيں خيالی نظر آتی ہيں۔ مگر تاريخ ميں کئی ايسے ممالک ہيں جہاں اس سے بدتر حالات تھے۔ اٹھارہويں صدی کے امريکہ ميں قانون نام کی کوئی چيز نہيں تھی۔ مگر وہاں علم اور اخلاقی قدروں کو فروغ ديا گيا تو وہ دنيا کے قائد بن گئے۔ تعليمی اداروں ميں اگر تعليم کے ساتھ ساتھ اخلاقيات پر بھی زور ديا جائے تو اگلی نسل کے دماغ معدوں سے واپس اپنی اصل جگہ پر آجائيں گے

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here