محمد لقمان
پچھلے سينتاليس سال میں پاکستان میں اب تک 10 عام انتخابات ہوچکے ہیں۔ ہر عام انتخاب میں امیدوار جیتنے کے لئے تن من دھن کی بازی لگاتے ہيں۔ بڑے بڑے معرکے ہوتے ہيں اور کئي مرتبہ برج بھی الٹ جاتے ہيں۔ مگر ضمني انتخابات عموماً ٹھنڈے ہوتے رہے ہيں۔ اس کي بنيادي وجہ ايک عام تاثر ہے کہ حکمران جماعت کا اميدوار ہي جيتے گا۔ مگر 2013 کے انتخابات کے بعد يہ روائت ٹوٹتي نظر آتي ہے۔ دو ہزار پندرہ ميں ہونے والے اين اے ايک سو بائيس کے ضمني انتخابات ميں مقابلہ عام انتخابات سے بھي زيادہ گرم رہا۔ 28 جولائي کے سپريم کورٹ کے فيصلے کے بعد سابق وزير اعظم نواز شريف نااہل قرار پائے تو ان کي سيٹ ۔ اين اے ايک سو بيس بھي خالي ہوگئي۔ جس کے لئے سترہ ستمبر کو ضمني انتخابات ہو رہے ہيں۔ جن ميں ن ليگ کي کلثوم نواز، تحريک انصاف کي ڈاکٹر ياسمين راشد کے علاوہ 40 سے زائد اميدوار مقابلے ميں ہيں۔ جہاں براداري کا ووٹ اپنا کردار ادا کرے گا تو وہيں مذہبي جماعتوں کي شرکت کي وجہ سے مذہبي رجحانات بھي اہم رہيں گے۔ شہر کي گنجان آبادي پر مشتمل حلقہ جس ميں اسلام پورہ، مزنگ ، کريم پارک ، مال روڈ، پراني انارکلي جيسے پرانے علاقے شامل ہيں، انتخابات سے پہلے جشن کا سماں پيش کر رہا ہے۔ ہر وقت ريلياں اور جلسے ايک معمول بن چکا ہے۔ تمام جماعتيں گھر گھر جا کر مہم چلا رہي ہيں۔ گويا کہ وہ تمام صورتحال جو عموماً عام انتخابات ميں نظر آتي تھي۔ ضمني انتخابات ميں بھي بدرجہ اتم موجود ہے۔ ن لیگ کی امیدوار کلثوم نواز کی لندن روانگی کے بعد ان کی بیٹی مریم نواز نے مہم کو سنبھالا ہوا ہے۔ دوسری طرف سے پی ٹی آٗیی کی مرکزی اور مقامی قیادت پورا زور لگا رہی ہے۔
ن ليگ اس حلقہ ميں شامل علاقوں سے پچھلے بتيس سال سے جيتتي آ رہي ہے۔ اس بار بھي کوشش ہے کہ ايک اچھے مارجن سے يہ انتخابات جيتے۔ دوسري طرف پي ٹي آئي کي اميدوار ڈاکٹر ياسمين راشد 2013 کے انتخابات ميں نواز شريف سے 40 ہزار ووٹ کے مارجن سے ہاري تھيں۔ ان کي يقيناً خواہش ہے کہ پانامہ ليکس فيصلے سے فائدہ اٹھا کر يہ سيٹ جيتي جائے ۔ اگر ايسا ممکن نہ ہو تو کم ازکم مارجن سے ہارا جائے۔ پیپلزپارٹی کے علاوہ دائيں بازو کي چھوٹي چھوٹي جماعتيں جن ميں حال ہي ميں تشکيل کردہ ملي مسلم ليگ اور جماعت اسلامي شامل ہيں، بھي پورے زور شور سے مقابلے ميں ہيں۔ جن کي وجہ سے زيادہ نقصان مسلم ليگ ن کو پہنچ سکتا ہے۔ اس حلقے ميں ووٹرز کي تعداد 3 لاکھ کے قريب ہے۔ ليکن يہاں پر لگائے گئے اشتہاروں، بينرز اور ہورڈنگ کي تعداد تو شايد اس سے کہيں زيادہ ہو۔ گويا ان انتخابات کي مہم پر اب تک کئي کروڑ روپے خرچ ہو چکے ہيں۔ يہ ايک ارب روپے کے سرکاري طور پر خرچ ہونے والے ترقياتي بجٹ سے الگ ہيں۔ اشتہار بازی کی اس دوڑ میں سب سے زیادہ تختہ مشق میٹرو بس کا ٹریک ہوا ہے۔ پلرز پر میٹرو بس کے حامیوں اور مخالفین کے پوسٹرز بلاامتیاز نظر چسپاں کیے گئے ہیں۔ سڑکوں کے ڈیوائڈرز اور گرین بیلٹس بھی محفوظ نہیں رہے۔ پرنٹنگ صنعت سے منسلک افراد اس مہم سے سب سے زیادہ مستفید ہوئے ہیں۔
پرنٹنگ کي صنعت سے منسلک افراد کے مطابق اب تک 10 کروڑ سے زائد کی رقم صرف تشہیری مہم پر خرچ کی جاچکی ہے۔ 300 سے زائد قائم ہونے والے پارٹی دفاتر پر تو روزانہ کا خرچہ 5 لاکھ روپے کے قریب ہے۔ ووٹوں کی نقد خریدوفروخت بھی زوروں پر ہے۔ گویا کہ ضمنی انتخابات کے بعد بڑے امیدواروں کو فتح یا ہار 20 سے 40 کروڑ روپے کی پڑے گی جو کہ الیکشن کمیشن کی طرف سے مقرر کردہ حد سے 200 گنا زیادہ ہوگی۔ اليکشن کميشن نے وزرا اور ارکان قومي اسمبلي کي طرف سے انتخابي مہم ميں حصہ لينے کا نوٹس ليا ہے۔ مگر حد سے زيادہ خرچہ کرنے پر کسي ادارے نے آواز نہيں اٹھائي۔ جوئے کا اصول ہے، جو لگائے گا، اسی کو ملے گا۔ انتخاب جیتنے کے لئے حد سے زیادہ روپیہ پیسہ لگانے والا جیتنے کے بعد ترقیاتی کاموں کے ٹھیکوں اور دیگر ناجائز ذریعوں سے کمانے کی کوشش بھی کرے گا۔ اس طرح معاشرے میں رزق حلال کو فروغ دینے کی کوششوں کو دھچکا لگے گا اور تبدیلی کے لئے عوام کی جدوجہد بھی بری طرح متاثر ہوگی۔ مغربی جمہوری ممالک کی روایات کے برعکس پاکستان کے انتخابی نظام میں پارٹیوں کی بجائے افراد اپنی مرضی سے روپے پیسے کا استعمال کرتے ہوئے کسی بھی حد کو پار کرسکیں گے اور متوسط اور غریب طبقے سے تعلق رکھنے والا فرد تو انتخابات میں حصہ لینے کا سوچ بھی نہیں سکے گا۔ یہی وقت ہے کہ برسر اقتدار اور حزب اختلاف کی سیاسی پارٹیاں اپنی صفوں میں ایسے عناصر کو پہنچانیں جو دانستہ یا غیر دانستہ طور پر جیتنے کی کوشش بھی ہر جائز اور ناجائز طریقہ اپنا رہے ہیں۔ فوری طور پر معاملات درست نہ کیے گٗئے تو اگلے 5 سالوں میں یہ بگاڑ ایک روایت بن جائے گا۔ بقول شیخ سعدی شیرازی کے جب سوئی کے نکے کے برابر چشمہ ہو تو اسے بند کرنا آسان ہوتا ہے۔ بعد تو ہاتھی کو کھڑا کرنے سے بھی شگاف نہیں پر ہوتا۔