سچ یہ بھی ہے۔۔۔کیا صلہ ملا ہمیں تیرے پیار کا

0
3601
US-Pakistan Relations

تحرير: محمد لقمان
کہاني تو پراني ہے مگر آج بھي ہميں قومي اور بين الاقوامي معاملات ميں ہر لمحہ نظر آتي ہے۔۔ ايک راجہ نے اپني رياست کے ايک مسلمان کسان سے کہا کہ وہ اسے داڑھي دے دے۔ کسان نے فوراً آمادگي ظاہر کردي ۔ شاہي حجام آيا اور اس نے کسان کے منہ کو چٹيل ميدان بناديا۔ کچھ عرصہ بعد راجہ نے ايک بنيے سے داڑھي مانگي تو اس نے بھي ہاں کردي۔۔حجام اس کي داڑھي صاف کرنے کے لئے آيا تو بنيے نے کہا کہ داڑھي تو اب راجہ کي ہے اس ليے کوئي بھي اسے صاف نہيں کرسکتا۔ الٹا بنيے کي داڑھي کي ديکھ بھال کے لئے ايک ملازم کي ڈيوٹي لگا دي گئي اور وہ ہر روز تيل لگانے کے بعد کنگي بھي کرتا۔
سات دہائيوں تک لاکھوں جانوں کي قرباني دينے والا پاکستان اس وقت اقوام عالم ميں ہر طرح کے دباو کا سامنا کررہا ہے۔۔جب کہ پانچ سے چھ دہائيوں تک امريکہ مخالف اتحادوں کا ساتھي رہنے کے باوجود بھارت مغربي دنيا کي آنکھ کا تارہ ہے۔۔ اپنے قيام کے بعد پاکستان نے تين سو کلوميٹر دور سوويت يونين سے تعلقات قائم کرنے کي بجائے بارہ ہزار کلوميٹر کے فاصلے پر موجود امريکہ کو دوست بنانے کو ترجيح دي۔ انيس سو پچاس ميں پہلے وزير اعظم لياقت علي خان نے ماسکو جانے کي بجائے واشنگھٹن کے دورے کي دعوت قبول کرلي۔انيس سو پچاس کي دہائي ميں ايشياء کے مغربي اور جنوب مشرقي حصوں ميں کميونزم کے اثر و نفوذ کو روکنے کے لئے سينٹو اور سيٹو جيسے اتحادوں ميں شموليت کرلي۔ انيس سو چھپن ميں سويز کينال کا بحران آيا تو پاکستان نے مصر کي بجائے مغربي دنيا کا ساتھ ديا۔انيس سو ساٹھ کي دہائي ميں سوويت يونين کے رازوں کا پتہ چلانے کے لئے پشاور کے قريب بڈھ بير کے قريب ہوائي اڈے سے امريکي يو ٹو جاسوس طيارے اڑان بھرتے رہے۔ اس پر اس وقت کے روسي رہنما خروشيف نے پاکستان پر حملے کے دھمکي بھي دے دي۔انيس سو پينسٹھ کي پاک۔بھارت جنگ ميں امريکہ نے اپنے حليف کي مدد کرنے کي بجائے پاکستاني جہازوں کے لئے پرزوں کي فراہمي پر پابندي لگا دي۔اس کے برعکس امريکہ اور چين کے درميان تعلقات کي بحالي کے لئے پاکستان نے ايک پل کا کردار ادا کيا۔۔جولائي انيس سو اکہتر ميں امريکي وزير خارجہ ھنري کسنجر نے پاکستان کے تعاون سے چين کا دورہ کيا۔ ليکن انيس سو اکہتر کے دسمبر ميں مشرقي پاکستان پر بھارتي حملے کے دوران امريکہ نے پاکستان کي وحدت کو بچانے کے لئے کسي قسم کي کوشش نہيں کي اور پاکستان چھٹے بيڑے کا ہي انتظار کرتا رہا۔ بنگلا ديش کي عليحدگي کے بعد پاک۔ امريکہ تعلقات ميں کئي سال تک کھٹاس رہي ۔۔اور وزير اعظم ذوالفقار علي بھٹو کو امريکي قيادت کي طرف سے سنگين دھمکياں بھي سنني پڑيں۔ امريکہ کو پاکستان کي ياد اس وقت آئي جب سوويت يونين نے دسمبر انيس سو اناسي ميں افغانستان پر قبضہ کرليا۔ ايک دہائي تک جاري رہنے والي جنگ ميں جہاں پاکستان ميں منشيات اور کلاشنکوف کي لعنتيں آئيں وہيں مذہبي انتہا پسندي نے بھي قدم جمائے۔ انيس سو نواسي ميں سوويت يونين افغانستان سے گيا تو پاکستان کو ايسے بھولا جيسے کبھي تعلق ہي نہيں تھا۔ يہي وہ وقت تھا جب طالبان نے افغانستان ميں موجود سياسي خلا سے فائدہ اٹھاتے ہوئے قدم جمائے اور پاکستان نے اس کو تحديدي گہرائي سمجھتے ہوئے صرف نظر کا مظاہرہ کيا۔اس دوران پاکستان ميں معاشي اور سياسي مسائل آئے تو مغربي دنيا نے اپني آنکھ بند ہي رکھي۔ کارگل کي جنگ ميں بھي مغربي دنيا کا دباو صرف پاکستان پر ہي آيا۔ پاکستان کي ضرورت دوبارہ امريکہ کو اس وقت پڑي جب اس کے اپنے شہروں پر گيارہ ستمبر دو ہزار ايک کو حملے ہوئے۔ امريکہ نے پاکستان کے پڑوسي ملک افغانستان پر حملہ کرنے کا اعلان کيا اور اس سلسلے ميں پاکستان سميت علاقے کے ممالک کو اپنے ساتھ ملا ليا۔ پندرہ سالوں ميں سرکاري اعداد و شمار کے مطابق ساٹھ ہزار سے زائد پاکستاني فوجي اور شہري دہشت گردي کے خلاف بين الاقوامي جنگ ميں جان قربان کر چکے ہيں۔ پاکستاني معيشت کو بھي 123 ارب ڈالرز کا نقصان ہو چکا ہے۔۔ليکن امريکي حکام کي طرف سے شاذ و نادر تو کسي قسم کے تعريفي کلمات آتے ہيں۔ جبکہ پاک۔ امريکہ مذاکرات ميں ڈو مور کا مطالبہ ضرور ملتا ہے۔

حال میں ہی امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی جنوبی ایشیا اور افغانستان کے لئے پالیسی میں تو پاکستان میں امریکہ کی ہر ناکامی کا ذمہ دارقرار دیا گیا ہے۔ اور پاکستان کو مختلف قسم کی دھمکیاں دی گئ ہیں۔ اس کے برعکس بھارت کو سول نيوکلير ٹيکنالوجي سپلائرز گروپ کا رکن بھي بنايا جارہا ہے۔ اور اقوام متحدہ کي سيکيورٹي کونسل کا مستقل رکن بنانے کے لئے يقين دہاني بھي کرادي گئي ہے۔۔ اور اس کو افغانستان کی ترقی میں کردار ادا کرنے کو کہا گیا ہے۔گويا ايک معصوم کسان اور چالاک بنيے کي کہاني کا تسلسل جاري ہے۔

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here