سچ یہ بھی ہے۔۔۔ایک اور درویش رخصت ہوا

0
2811

تحریر: محمد لقمان
ظفر رشید بھٹی سے میری پہلی ملاقات تقریبا ً تین دہائی پہلے اے پی پی ہیڈکوارٹرز اسلام آباد میں ہوئی جب نئے نویلے صحافیوں کے بائیس رکنی گروپ کی قومی خبر رساں ایجنسی نے تین ماہ کی تربیت شروع کی۔ اس وقت ان کی عمر چالیس سال کے قریب ہوگی۔ ہمیشہ ان کو شلوار قمیض ہی زیب تن کیے دیکھا۔سردیوں میں ایک کوٹ کا اضافہ ہوجاتا۔ چہرے پر شرارتی مسکراہٹ ان کا ٹریڈ مارک تھی۔ کوئی ان سے اونچی آواز میں بھی بات کرتا تو یہ دھیمی آواز میں دلیل کے ساتھ اس کا جواب دیتے۔ ہمارے بیچ کے ذیشان حیدر کے ساتھ عمر کے فرق کے باوجود بھی ان کی جیسے دوستی ہوگئی۔ ذیشان اپنی عادت کے مطابق ان کو جگت لگاتا تو وہ کبھی ایک آنکھ دبا کر تو کبھی ہلکی سی ہنسی کے ساتھ سر ہلا کر اس کا جواب دے دیتے۔ راولپنڈی سے اسلام آباد آتے تو بڑی تیزی سے دفتر میں داخل ہوتے۔ مگر دفتر کے گیٹ سے نیوز روم میں داخل ہونے تک ہر کسی کے سلام کا جواب دیتے اور اس کا حال احوال پوچھتے۔ گویا کہ اے پی پی میں کام کرنے والے ان کے کنبے کا حصہ تھے۔ ٹریننگ کے بعد ہمارے بیچ کے اراکین پاکستان کے مختلف شہروں میں تعینات ہوگئے۔ ہر سال وفاقی بجٹ یا کسی اور موقع پر ہیڈکوارٹر جاتے تو ان سے ملاقات ہوجاتی۔ جب بھی ملاقات ہوتی تو ان کو مزید نرم گو پایا۔ عام پاکستانی عمر بڑھنے اور مزید ذمہ داریاں ملنے کے ساتھ چڑ چڑے ہو جاتے ہیں۔ مگر بھٹی صاحب میں ایسا نہیں تھا۔ پیشہ ورانہ طور پر تو ان کی کارکردگی قابل ستائش تھی تو ورکرز کے حقوق کے تحفظ کے لئے بھی وہ دن رات مصروف عمل رہتے۔ راولپنڈی۔اسلام آباد پریس کلب کی سرگرمیوں میں حصہ لینے کے ساتھ ساتھ وہ ایک عرصے تک وہ اے پی پی ایمپلائز یونین کے صدر رہے۔ تنخواہوں اور دیگر مراعات میں اضافے کے لئے ان کا بہت اہم کردار رہا۔ عمر بڑھنے کے ساتھ ساتھ وہ زیادہ مذہبی ہوتے گئے۔ کالی داڑھی پہلے کھچڑی ہوئی اور بعد میں مکمل سفید۔ مگر انہوں نے کلر لگانے سے احتراز ہی کیا۔ گویا کہ ان کا ظاہر اور باطن ایک ہی تھا۔ دو ہزار دس یا گیارہ میں وہ ساٹھ سال کی عمر میں ریٹائر ہوئے۔ مگر ورکرز کی بہتری کے لئے بدستور کام کرتے رہے۔ جب پینشنز میں اضافے کو روک دیا گیا تو سپریم کورٹ میں پینشنرز کے کیس لے جانے میں ان کا بھی کردار تھا۔ دو ہزار سات تک جب میں اے پی پی میں تھا تو ان کے لاہور آنے پر ملاقات ہو جاتی۔ مگر بعد میں جب بھی اسلام آباد کے دوستوں سے بات ہوتی تو ان کا حال احوال پوچھتا تو پتہ چلتا کہ وہ بھی مجھ سمیت انیس سو نوے کے بیچ کے تمام ارکان کو مس کرتے ہیں۔ تقریباً ایک ہفتہ پہلے مجھے ذیشان حیدر اور عظیم احمد خان سے پتہ چلا کہ بھٹی صاحب کورونا کا شکار ہوگئے ہیں۔ تو دل کو بہت بے چینی ہوئی۔ بڑی دعا کی کہ اللہ تعالی ان کو شفائے کاملہ دے۔ مگر ان کا شاید وقت آگیا تھا۔ پیر کی صبح اے پی پی کے وٹس ایپ گروپ پر ذیشان حیدر کی پوسٹ سے پتہ چلا کہ وہ انتقال کر گئے ہیں۔ اللہ تعالی ان کے درجات بلند کرے۔ ایسے درویش تو بہت کم کم ملتے ہیں۔ خصوصاً جرنلزم میں جہاں اب تو نوزائدہ صحافی بھی ہر وقت کسی نہ کسی جیک پاٹ کا انتظار کرتا ہے۔ ان حال میں بھٹی صاحب کی زندگی تو اللہ تعالی کی ذات پر توکل کی ایک عمدہ مثال تھی۔

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here