تحریر: محمد لقمان
بھارتی وزیر اعظم نرندر مودی نے چھپن سال سے تعطل کے شکار سردار سروور ڈیم کا آخر کار افتتاح کردیا ہے۔۔بھارتی ریاست گجرات میں دریائے نرمدا پر واقع اس ڈیم کی تعمیر کا افتتاح بھارت کے پہلے وزیر اعظم جواہر لال نہرو نے 1961 میں کیا تھا۔ مگر سیاسی اور ماحولیاتی تنازعات کی بنیاد پر منصوبہ دیر تک التوا کا شکار رہا۔ ایک ترقیاتی سکیم کے تحت 1979 میں اس منصوبے کی باضابطہ تشکیل دی گئی۔ لیکن مہاراشٹرا، گجرات ، مدھیہ پردیش اور راجستھاں کی مختلف تنظیمیں اس کی تعمیر کی مخالفت کر تی رہیں۔ نرمدا بچاو اندولن نام کی تنظیم تو اس منصوبے کی سب سے زیادہ مخالف رہی۔ یہی وجہ تھی کہ ورلڈ بینک نے اس ڈیم کی تعمیر کے لئے بھارت کو قرضہ دینے سے انکار کردیا۔ لیکن بھارت کی مرکزی حکومتوں نے اس 1450 میگاواٹ بجلی کے اس منصوبے کو معطل تو کیا مگر ختم نہیں کیا۔ اس وقت جب اس منصوبے کا افتتاح ہوچکا ہے۔ یہ دنیا کے پانچویں سب سے بڑے ڈیم کے طور پر سامنے آگیا ہے۔ اس ڈیم کی اونچائی 163میٹر ہے۔ اس سے نکلنے والی نہروں کا نیٹ ورک 85898کلومیٹر ہے ۔ اس ڈیم کی تعمیر یقینی بنانے کے لئے بھارت کے سپریم کورٹ نے بھی اپنا کردار ادا کیا ۔ اس پروجکٹ سے مہاراشٹر کو 27فیصد بجلی ،گجرات کو 16فیصد اور مدھیہ پریدیش کو 57فیصد بجلی ملے گی ۔ ان تینوں کے علاوہ اس سے راجستھان کو پانی ملے گا ۔ اس منصوبے سے 25 لاکھ ایکڑ رقبہ میں آبپاشی ہوسکے گی ۔ بھارت میں دریائے نرمدا کا منصوبہ 1950 کی دہائی میں بنا تو اسی دور میں پاکستان میں دریائے سندھ پر کالا باغ ڈیم کے منصوبے کا بھی سوچا گیا تھا۔ حکومت پاکستان نے اس منصوبے پر غور و خوض 1953 میں شروع کیا۔ اس منصوبے کی تعمیر اس لیے آسان تھی کہ جھیل کے تین طرف پہاڑ تھا۔ جس کی وجہ سے دیواریں بنانے کی ضرورت نہیں تھی۔ مگر مختلف قسم کے اعتراضات کی وجل سے اس کی تعممیر میں تاخیر ہوتی گئی۔کالا باغ 1973 تک پانی ذخیرہ کرنے کا ایک منصوبہ ہی رہا لیکن بجلی کی بڑھتی ہوئی مانگ اور قیمتوں نے واپڈا کے ماہرین کو اسے پن بجلی تیار کرنے والے ڈیم میں تبدیل کرنے پر مجبور کر دیا۔ ایک اندازے کے مطابق اس منصوبے کی سروے رپورٹوں پر اب تک حکومت کے ایک ارب روپے خرچ ہو چکے ہیں۔ لیکن بات اس سے آگے نہیں بڑھ سکی۔ منصوبے نے پہلے سیاسی رنگ اختیار کر لیا اور سیاسی جماعتوں نے اپنے مفادات کے حصول کے لئے اس کے صرف منفی پہلووں کو ہی اجاگر کیا۔ ماہرین آبپاشی کا کہنا ہے کہ کالاباغ ڈیم کی تعمیر سے چھ اعشاریہ ایک ملین ایکڑ فٹ پانی ذخیرہ کرنے کی صلاحیت حاصل ہو جائےگی جبکہ چوبیس ہزار میگا واٹ سے زائد پن بجلی بجلی فپیدا ہوسکے گی،۔ اس کے علاوہ اس ڈیم سے تربیلا اور منگلا ڈیموں کی زندگی بڑھنے، سیلابی پانی کو ذخیرہ کرنے اور سستی بجلی فراہم کرنے جیسے فوائد بتائے جاتے ہیں۔ اس پر آنے والا خرچہ سن انیس سو ستاسی کے اندازے کے مطابق پانچ ارب ڈالر سے زیادہ تھا جوکہ اب آٹھ ارب سے بھی بڑھ چکا ہے۔ لیکن اس ڈیم پر سیاست کی وجہ سے پنجاب کے علاوہ ملک کے دیگر تین صوبے اس کی مخالفت کرتے رہے ہیں۔ صوبہ سندھ میں تو اسے کالاباغ کی بجائے کالا ناگ بھی کہتے ہیں۔ سندھ، خیبر پختون خوا اور بلوچستان کی صوبائی اسمبلیاں اس ڈیم کے خلاف قراردادیں منظور کرچکی ہیں جس سے اس منصوبے کی شدید مخالفت ظاہر ہوتی ہے۔ ڈیم کے مخالفوں کے مطابق ڈیم کی تعمیر سے خیبر پختون خوا میں بڑی تعداد میں لوگوں کو نقل مکانی کرنی پڑے گی، زرخیز علاقے پانی میں ڈوب جائیں گے اور مزید اراضی سیم اور تھور کا شکار ہوجائے گی۔ صوبہ سندھ کے اپنے خدشات ہیں۔ اسے ماضی میں پنجاب سے سب سے بڑی شکایت اس کے حصے کا پانی نہ ملنا رہی ہے اور خدشہ ہے کہ ایک اور ڈیم کی تعمیر سے صورتحال مزید خراب ہوسکتی ہے۔ صوبہ بلوچستان کا اگرچہ اس منصوبے سے براہ راست کوئی تعلق تو نہیں لیکن اس کا کہنا ہے کہ چونکہ وہ اپنا پانی صوبہ سندھ سے لیتا ہے لہٰذا اس کے موقف کی تائید کرے گا۔ایسی صورتحال میں جب کالا باغ ڈیم منصوبے پر سرحد اور سندھ کے قوم پرست عناصر اپنے موقف سے ایک انچ بھی ہٹنے کو تیار نہیں ہیں، اس پر کام کا جلد آغاز ناممکن نظر آتا ہے۔ یہ ڈیم اتنا سیاسی ہوچکا ہے کہ اسے چھونا ایک سیاسی طوفان کھڑا کر سکتا ہے۔ ملک میں جاری پانی کے بحران کی وجہ سے اب چھوٹے صوبوں سے بھی کالا باغ کے حق میں اکا دکا آوازیں اٹھنا شروع ہوگئی ہیں۔ سابق چیرمین واپڈا اور خیبر پختون خوا کے عبوری وزیر اعلی انجینئر شمس الملک اس ڈیم کے بہت بڑے حامی ہیں۔ ماہرین آب کا کہنا ہے کہ اگر بھارت نرمدا دریا پر ڈیم کے منصوبے کے بارے میں چار صوبوں میں اتفاق رائے پیدا کرسکتا ہے تو پاکستان کالاباغ ڈیم کے بارے میں ایسا کیوں نہیں کرسکتا۔