پھاگن کا مہینہ: بہار کا نقیب

0
1598


تحریر: محمد لقمان
دسمبر اور جنوری کو پاکستان میں انتہائی سردی کے مہینے سمجھا جاتا ہے۔سردی کے اس رومانوی دور کو دیسی کیلنڈر کے حساب سے پوہ اور ماگھ کے مہینوں کا نام دیا گیا ہے۔۔ جوں ہی ماگھ کا مہینہ فروری کے وسط میں ختم ہوتا ہے۔ تو پھاگن کے مہینے کا آغاز ہو جاتا ہے جو کہ بکرمی تقویم کے مطابق سال کا آخری مہینہ تصور کیا جاتا ہے۔ جبکہ پنجاب کے دیسی کیلنڈر کے مطابق یہ سال کا گیارھواں مہینہ ہے۔ سردی کی شدت میں کمی آتی ہے تو موسم خوشگوار لگنا شروع ہو جاتا ہے۔ان حالات میں جب سردیوں کا موسم آخری انگڑائیاں لے رہا ہوتا ہے۔ تو دھوپ میں گرمی تو چھاؤں میں سردی بیٹھنے نہیں دیتی۔ اس مہینے میں بہار کے آثار دکھنا شروع ہو جاتے ہیں۔ پھاگن ہی کے مہینے میں ہندو ہولی کا رنگ برنگا تہوار مناتے ہیں۔ یہ تہوار فروری یا مارچ میں آنے والی چاند کی چودھویں تاریخ کو منایا جاتا ہے۔ درختوں کے پتے سردیوں میں بتدریج خشک ہوتے ہوتے پھاگن کے مہینے میں پژمردہ ہو کر گرنے لگتے ہیں۔ پھاگن کی تیز ہوائیں پتوں کے جھڑنے کی رفتار کو اور بھی تیز کر دیتی ہیں۔ شاید یہی وجہ ہے کہ اس موسم کو پت جھڑ کے نام سے بھی جانا جاتا ہے۔ پھاگن کا مہینہ وسط مارچ تک رہتا ہے۔ جس کے بعد بہاراپنی تمام تر رعنائیوں کے ساتھ نمودار ہو جاتی ہے۔ بہار کے مہینے کو چیت کہتے ہیں جو وسط مارچ سے وسط اپریل تک جاتا ہے۔ بھادوں،اسوج، کاتک،مگھر، پوہ اور ماگھ کی طرح پھاگن بھی تیس دنوں کا ہوتا ہے۔ بکرمی سال کو شمسی سال اور موسموں کے مطابق رکھنے کے لیئے یہاں بھی ایک سال لیپ کا ہوتا ہے اور ہر چوتھے سال پھاگن کا مہینہ ہی اکتیس دنوں کا ہو جاتا ہے۔ بیساکھ کا مہینہ اکتیس دنوں کا ہوتا ہے۔ جیٹھ اور ہاڑ بیتس دنوں کے ہوتے ہیں۔پھاگن کے مہینے کو پاکستان اور بھارت کے پنجاب کے علاقوں میں خاص اہمیت حاصل ہے۔سرائیکی، پنجابی، ہندی اور ہندکو کے علاوہ دوسری مقامی بولیوں میں اس مہینے کے متعلق کئی محاورے اور اشعار موجود ہیں۔ اردو زبان میں بھی اس مہینے کو ادب کا حصہ بنایا گیا ہے۔ قتیل شفائی نے بھی اپنی ایک غزل میں اس رومانوی مہینے کا بڑی خوبصورتی کے ساتھ ذکر کیا ہے
کسی پہپہے نے کوئی برہا کا گیت گایا تو کیا کرو گے
ابھی تو پھاگن کا ہے مہینہ جو ساون آیا تو کیا کرو گے
قتیل تم جس کو چاہتے ہو چھپاؤ لاکھ اس کا نام پیارے
تمہاری سنجیدگی کو موسم نے گدگدایا تو کیا کرو گے
پھاگن کے مہینے کا حسن پاکستان خصوصاً پنجاب کے میدانی علاقوں میں کھل کر دیکھا جا سکتا ہے۔ اس موسم میں سرسوں کے پھول چار سو کھلے ہوئے ہوتے ہیں۔ سرسوں کے پھولوں کی پیلی رنگت ماحول میں ایک عجیب کیف و سرور کی سی کیفیت پیدا کر دیتی ہے۔ اگرچہ تند ہوا میں ٹھنڈک ہوتی ہے لیکن اس میں پوہ اور ماگھ جیسی کاٹ نہیں ہوتی۔ سردیوں میں سویا سویا رہنے والا سورج پھاگن میں اچانک جاگ اٹھتا ہے اور اپنی موجودگی کا احساس دلوانا شروع کر دیتا ہے۔ قدرت نے ہر موسم اور ہر رُت کو ایک انفرادی حسن اور کشش عطا کی ہے۔ موسم چاہے انگریزی مہینوں کا ہو یا دیسی مہینوں کا، جمالیت پسند لوگ ہر موسم میں خوبصورتی کا کوئی نہ کوئی پہلو نکال ہی لیتے ہیں۔گیتوں، شعروں، افسانوں اور محاوروں میں ساون، بہار اور دسمبرکے متعلق کئی رومانوی باتیں کی گئی ہیں۔ ایسے ہی یہ پھاگن کا مہینہ بھی رنگین رت تصور کیا جاتا ہے۔ اس کے بعد چیت اور بیساکھ کے مہنوں میں بھی اکثر اوقات معتدل درجہ حرارت رہتا ہے۔ مگر جو مزہ پھاگن کا ہے وہ سال کے دیگر مہینوں میں کہاں۔

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here