سفر جنوب کے۔۔۔قسط سوم

0
1691

گولارچی۔۔۔زراعت اور قدرتی وسائل سے مالامال علاقہ

تحریر: محمد لقمان
سجاول کے نواح سے ہوتے ہوئے گولارچی کی طرف سفر جاری رہا۔ راستے میں سڑک کے کنارے پر مقامی اقسام کے درخت دیکھ کر بڑی خوشی ہوئی۔لاہور اور پنجاب کی سڑکوں کے کنارے پر عموماً بدیشی درخت خصوصاً یوکلپٹس کو دیکھ کر خون کھول اٹھتا ہے۔ جب آپ کے پاس کیکر اور شیشم کے درخت موجود ہیں تو پانی کا بے تحاشا خرچ کرنے والے سفیدے کی ضرورت کیوں پیش آتی ہے۔ صرف اس لئے کہ یہ جلد بڑا ہو جاتا ہے۔ سندھ کے ساحلی اضلاع کراچی، ٹھٹھہ اور بدین میں سفیدہ اگانے کا کوئی زیادہ نقصان نہیں ہوتا کیونکہ سمندر قریب ہونے اور دریائے سندھ کے ڈیلٹا میں واقع ہونے کی وجہ سے بہت سارے علاقے سیم کا شکار ہیں۔ اس کا اندازہ ٹھٹھہ اور سجاول کے اضلاع میں سے گذرتے ہی ہو جاتا ہے۔ جہاں جگہ جگہ زمین زیر آب نظر آتی ہے۔ یہ بارشوں کا پانی نہیں بلکہ زیر زمین پانی کی سطح اتنی بلند ہو چکی ہے کہ پانی باہر نظر آتا ہے۔ ایک زمانے میں پنجاب کے کئی علاقے بھی سیم اور تھور کا شکار تھے۔ مگر زیر زمین پانی کی دستیابی میں کمی کے بعد صورت حال کافی بہتر ہوچکی ہے۔ ضلع بدین میں کوٹری ہیڈورکس سے دریائے سندھ سے نکالی گئی تین نہریں آتی ہیں۔ جن میں اکرم واہ کینال، پھلیلی کینال اور گونی کینال شامل ہیں۔ گولارچی میں زیادہ تر رقبہ گونی کینال سے سیراب ہوتا ہے۔ اور چاول ، کماد اور سورج مکھی کی فصلیں عام ہیں۔ قدرت نے بدین خصوصا گولارچی کو گیس اور تیل کے ذخائر سے بھی مالا مال کیا ہوا ہے۔

تاہم چاول کی فصل کی پٹی ہونے کی وجہ سے لوگوں کا زیادہ تر روزگار زراعت اور چاول کی چھڑائی کے کارخانوں سے جڑا ہوا ہے۔ قصہ مختصر کہ تقریباً ایک بجے کے قریب گولارچی یعنی شہید فاضل راہو کے قصبے میں پہنچ گئے۔ اس قصبے کا نام ترقی پسند کسان رہنما فاضل راہو کے نام پر رکھا گیا ہے جن کو سترہ جنوری انیس سو ستاسی کو دن دہاڑے قتل کردیا گیا تھا۔ ان کے بیٹے اسماعیل راہو اس وقت صوبہ سندھ کے وزیر زراعت ہیں۔ گولارچی شہر شروع ہونے پر ایک یادگاری دروازہ ہے جس پر شہید فاضل راہو لکھا ہوا ہے۔ گولارچی سے ہم نے چک اٹھاون جانا تھا۔ وین ڈرائیور نے پہلے خود ہی منزل مقصود تک پہنچنے کی کوشش کی مگر بھول گیا۔ میزبانوں کو راستہ جاننے کے لئے فون کیا تو تقریبا ً پندرہ منٹ کی تگ و دو کے بعد چک اٹھاون جانے والے راستے کو ڈھونڈ پائے۔ ایک راجباہ کے کنارے پگڈنڈی پر گاڑی چلانا کتنا مشکل ہے۔ اس کا اندازہ اس دن ہوا۔ خصوصاً ایک طرف راجباہ ہو اور دوسری طرف سیم زدہ دلدلی زمین تو ڈرائیور ایک امتحان میں پڑ جاتا ہے۔ بار بار سندھی زبان میں پتہ پوچھتے پوچھتے ڈرائیور بالآخر ہمیں اس مقام تک لے گیا ۔ جہاں ہائبرڈ چاول کی اقسام اگانے والے کسانوں کے لئے تقریب انعامات کا اہتمام کیا گیا تھا۔ ہمارے میزبان اور گارڈ ایگری ریسرچ کمپنی کے سینیر ڈائریکٹر مومن علی ملک سڑک کے راستے لاہور سے بدین کا سفر کرکے جلسہ گاہ میں پہنچ گئے تھے۔ ہائبرڈ رائس سیڈ کی چینی کمپنی کے پاکستان میں کنڑی ڈائریکٹر لیو بھی موجود تھے۔ صرف ہمارا انتظار تھا۔ جونہی ہم پنڈال میں داخل ہوئے تو تقریروں کا آغاز ہوگیا۔ سب لوگ سندھی زبان میں خطاب کر رہے تھے۔ انگریزی اور اردو کی آمیزش والی سندھی ہم سب کو سمجھ آ رہی تھی۔ تقریب میں ترقی پسند کاشتکاروں کو موبائل فون اور ٹی وی جیسے انعامات سے نواز ا گیا۔ اس کے لئے قرعہ اندازی کی گئی تھی۔ تقریب کے اختتام پر لاہور سے آنے والے تمام صحافیوں کو اجرک پہنائی گئیں۔ اگلا مرحلہ وہاں کاشت کئے گئے ہائبرڈ چاول کی فصل پر ایک رپورٹ بنانا تھا۔
(جاری ہے)

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here