خار زار صحافت۔۔۔قسط پچھتر

0
1801

پاکستانی اقتصادیات کے گورو
تحریر: محمد لقمان
تین نومبر انیس سو ستانوے کی صبح ایکونا ورکشاپ کا آغاز ہوا تو اے پی پی اسلام آباد کے بیوروچیف عبدالغنی چوہدری نے شرکا کا تعارف کروایا۔ اور ڈائریکٹر جنرل ایم آفتاب نے سب کو خوش آمدید کہا۔ پاکستان، ترکی اور ایران کی سرکاری خبر رساں ایجینسیز کے نمائندے تو انگلش میں بات چیت کر سکتے تھے۔ مگر وسطی ایشیا کے ممالک سے آئے مندوبین تو صرف روسی یا اپنی قومی زبان ہی سمجھ اور بول سکتے تھے۔ اس لئے ان کو سمجھانے اور ان کی بات سمجھنے کے لئے روسی زبان سمجھنے اور بولنے والے شخص کا انتظام کیا تھا۔ جمال خٹک جو کہ اے این پی کے مرحوم رہنما اجمل خٹک کے صاحبزادے تھے، کو روسی زبان میں اس لئے ید طولی حاصل تھا کہ انہوں نے اپنے والد کی جلاوطنی کے دور میں ساری تعلیم سابقہ سوویت یونین کے تعلیمی اداروں سے حاصل کی تھی۔۔ انہوں نے ماسکو یونیورسٹی سے تاریخ کے مضمون میں ماسٹرز کی ڈگری حاصل کی ہوئی تھی۔ جمال خٹک جیسے سادہ لوگ اس دنیا میں بہت کم پائے جاتے ہیں۔ دو ہفتے طویل ورکشاپ کے دوران وہ ہمیشہ شلوار قمیض میں ہی نظر آئے۔ ورکشاپ جو کہ اکنامک جرنلزم پر تھی، اس لیے ہر اصطلاع کا روسی زبان میں ترجمہ کرتے اور شرکا کے روسی زبان میں سوالات کو انگریزی اور اردو میں مقررین تک پہنچاتے۔ ورکشا پ کے اہم شرکا میں وزیر خزانہ سرتاج عزیز اور نج کاری کمیشن کے سربراہ اسحاق ڈار بھی تھے۔ مگر جن لوگوں سے سیکھنے کا موقع ملا۔ ان میں انگریزی اخبار دی نیوز کے سینیر صحافی خلیق زبیری اور ڈان کے صحافی ضیا الدین شامل تھے۔ جنہوں نے اقتصادی صحافت اور خبر لکھنے کے بارے میں بڑی تفصیل سے بتایا۔ چارٹرڈ اکاونٹنٹ مطیع الرحمان اور کارپوریٹ لا اتھارٹی کے آخری چیرمین میاں ممتاز عبداللہ نے اسٹاک ایکسچینج میں رجسٹرڈ اور نان رجسٹرڈ کمپنیوں کی بیلنس شیٹس کو سمجھانے کی بھرپور کوشش کی۔ بعد میں اسلام آباد اسٹاک ایکسچینج کے ایم ڈی طارق اقبال نے اسٹاک مارکیٹ کے بارے میں بریفنگ دی تو ابلا غ میں کافی بہتری رہی۔پاکستان کے نجی شعبے میں ٹی وی جرنلزم کے بانی اور ٹیلی بز پروڈکشن ہاوس کے مالک ظفر صدیقی جنہوں نے بعد میں سی این بی سی ، جاگ اور سما ٹی وی چینلز کی بنیاد رکھی، کو بھی ورکشاپ کے شرکا سے خطاب کے لئے مدعو کیا گیا تھا۔ گویا علم کی برسات ہو رہی تھی۔ اکنامک جرنلزم کو سیکھنے کا یہ ایک اہم موقع تھا۔ پاکستان سافٹ ویر ایکسپورٹ بورڈ کے ایم ڈی شاہد محمود نے سافٹ ویر کی برآمدات کے لئے پاکستان کی کوششوں کے بارے میں بتایا۔ مگر اس دور میں چونکہ انٹرنیٹ پاکستان میں عام نہیں تھا۔ اس لیے بہت کم کمپنیاں ایسی تھیں جن کی مغرب کی دنیا کی مارکیٹ تک رسائی ہو۔ ورکشاپ کے پہلے ہفتے میں پاکستان ٹیلی وژن کے ہیڈ کوارٹر ز میں جانے کا اتفاق ہوا۔ جہاں پی ٹی وی کے اس وقت کے ڈائریکٹر نیوز شکور طاہر نے سرکاری ٹی وی میں خبریں اکٹھی کرنے اور ان کو نشر کرنے کے طریقوں سے آگاہ کیا۔ اگرچہ میں دسمبر انیس سو نوے میں بھی پی ٹی وی ہیڈکوارٹرز جاچکا تھا۔ مگر ٹی وی جرنلزم کو پہلی مرتبہ تفصیل میں جاننے کا موقع ملا تھا۔ اس دوران ہمیں ریڈیو پاکستان کے ہیڈکوارٹرز لے جایا گیا۔ جہاں پاکستان براڈکاسٹنگ کمپنی کے ڈی جی خواجہ اعجاز سرور اور ڈائریکٹر نیوز نذیر بخاری نے بریفنگ دی۔

(جاری ہے)

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here