خار زار صحافت۔۔۔قسط پچانوے

0
869

واجپائی کی لاہور یاترا  (۱)

تحریر: محمد لقمان

مئی 1998 میں ایٹمی دھماکوں کے بعد جنوبی ایشیا میں ایک تناو کی صورت حال پیدا ہوگئی تھی۔ عالمی برادری بھی بھارت اور پاکستان کو ایسے کھلنڈرے ملک قرار دے رہی تھی جنہوں نے نیوکلیر دھماکے کرتے ہوئے دنیا کے ممالک کے احساسات کا کوئی خیال نہیں کیا تھا۔ مگر ان حالات میں بھی دونوں ملکوں کی قیادت نے دانشمندی کا مظاہرہ کرتے ہوئے بات چیت کے راستے بند نہیں کیےتھے۔ 29 جولائی 1998 کو سری لنکا کے دارالحکومت کولمبو میں سارک کی دسویں سربراہ کانفرنس ہوئی تو وہاں بالآخر پاکستان کے وزیر اعظم نواز شریف اور ان کے بھارتی ہم منصب اٹل بہاری واجپائی کی ملاقات ہوگئی۔ جس سے دنیا بھر کو پتہ چل گیا کہ نئے ایٹمی ممالک اتنے غیر ذمہ دار نہیں ہیں۔ دو مہینے کے بعد نیویارک میں  اقوام متحدہ  کی جنرل اسمبلی کے اجلاس میں دونوں ممالک کی قیادت کو دوبارہ ملنے کا موقع مل گیا۔ یوں جنوبی ایشیا میں تناو کی صورت حال خاصی ہوگئی اور کسی بھی قسم کی روایتی اور ایٹمی جنگ کا خطرہ بھی ٹل گیا ۔ یوں  1998 کا سال اسی طرح گذر گیا۔ 1999 کے سال کےآغاز میں  بھی جنوبی ایشیا میں ایک گو مگو کی صورت حال ہی نظر آئی۔ پاکستان کے دفتر خارجہ کے 11 فروری کے ایک بیان نے پوری دنیا  کو حیران کردیا کہ کہ 20 فروری کو بھارتی وزیر اعظم  اٹل بہاری واجپائی واہگہ کے راستے بس پر سوار ہو کر پاکستان پہنچ رہے ہیں۔ اور اس کے ساتھ پاکستان اور بھارت کے درمیان ایک بس سروس کا آغاز بھی ہو جائے گا۔ ایٹمی دھماکوں کے بعد دونوں ممالک کے تعلقات میں ایسی بہتری کی کوئی توقع نہیں کر رہا تھا۔ بہر حال دفتر خارجہ کے بیان کے بعد اے پی پی ہیڈ کوارٹر سے بھی واجپائی کے دورے کی کوریج کا پروگرام آگیا۔ سرکاری خبر رساں ایجنسی کے لئے بھارتی وزیر اعظم کا دورہ کتنا اہم تھا۔اس کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ اسلام آباد سے ڈائریکٹر نیوز خلیل الرحمان بھگیو اور چیف رپورٹر جاوید اختر بھی اے پی پی کی اس ٹیم میں شامل تھے۔ جنہوں نے دورے کی کوریج کرنی تھی۔ لاہور بیورو سے راقم الحروف کے علاوہ ڈاکٹر وقار چوہدری اور دیگر کئی رپورٹر شامل تھے۔ اسلام آباد سے اے پی پی کی ٹیم 19 فروری کو لاہور پہنچ گئی ۔ وزارت اطلاعات نے  20 فروری کی صبح  میڈیا کو لے جانے کے لئے آواری ہوٹل سے واہگہ لے جانے کے انتظامات کیے تھے۔ صبح  سویرے مال روڈ پر واقع ہوٹل پہنچے  تو درجنوں کی تعداد میں غیر ملکی صحافی بھی وہاں موجود تھے۔ بہر حال پریس انفرمیشن ڈیپارٹمنٹ کے افسران نے ملکی اور غیر ملکی  میڈیا کو بسوں میں سوار کروایا اور لاہور سے تقریباً 30 کلومیٹردور  پاک۔ بھارت بارڈر کے لئے روانہ کردیا۔ واہگہ پہنچے تو وہاں جشن کا سا سماں تھا۔ سب لوگوں کو اب اگر کسی کا انتظار تھا تو وہ بھارتی وزیر اعظم واجپائی اور ان کے وفد کے ارکان کا۔ وفد کا استقبال کے لئے ابھی وزیر اعظم نواز شریف بھی پہنچنے والے تھے۔ گھوڑا ٹائم کے اصول کے تحت میڈیا کو بہت پہلے بلا لیا گیا تھا۔

( جاری ہے)

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here