خارزار صحافت۔۔۔قسط چھتیس

0
2611

مہرآباد ایرپورٹ سے ہوٹل لالہ انٹرنیشنل تک

تحریر: محمد لقمان

مہرآباد 1993 میں ایران کی سب سے بڑی بین الاقوامی ایرپورٹ تھی جہاں ملکی اور غیر ملکی پروازیں بڑی تعداد میں آتی جاتی تھیں۔ ایرپورٹ میں داخل ہوتے ہی خیال آیا کہ جیب میں ڈالرز کے علاوہ جو پاکستانی کرنسی موجود تھی، اس کو ایرانی ریال میں تبدیل کروا لیا جائے تاکہ کچھ شاپنگ ہوجائے۔ ایرپورٹ پر موجود کرنسی ایکسچینج یعنی صرافہ کے واحد کاونٹر پر پہنچا تو اس کی پیشانی پر انگریزی میں نعرہ ۔۔ڈاون ود امیریکا اور فارسی میں مرگ بر آمریکہ لکھا تھا۔ کاونٹر پر موجود شخص سے پاکستانی کرنسی کو ایرانی کرنسی سے بدلنے کا کہا تو توقع کے برعکس جواب آیا کہ صرف امریکی ڈالر ہی بدلے جاتے ہیں۔ گویا پاکستان ہو یا ایران۔ امریکی ڈالر کی حکمرانی ہر جگہ تھی۔ بہرحال بعد میں تہران شہر سے روپے کے بعد ایرانی ریال مل گئے۔ لگیج بیلٹ سے سامان حاصل کرکے باہر کے راستے کی طرف چلا تو تہران میں پاکستانی سفارت خانے کے ایک شخص میرے نام والا بورڈ لے کر کھڑے تھے تو دوسری طرف ایرانی نیوز ایجنسی ارنا کے ایک صاحب میرا اور غازی الرحمان کے ناموں والے پلےکارڈ لیے موجود تھے۔ میں پہلے پاکستانی سفارتخانے کے نمائندے کی طرف گیا اور بتایا کہ میں ہی اے پی پی کا رپورٹر محمد لقمان ہوں۔ جس پر ان صاحب نے اپنا تعارف کروایا۔ وہ تہران میں پاکستانی سفارتخانے میں پریس اتاشی عشرت علی شیخ تھے۔ بڑی ہنس مکھ شخصیت کے مالک عشرت علی شیخ واپڈا میں اس وقت ڈپٹی ڈائریکٹر تعلقات عامہ دلشاد علی شیخ کے بھائی تھے۔ مجھے کہنے لگے کہ آپ کے باس ایم آفتاب کا فون آیا تھا کہ لڑکا پہلی دفعہ تہران آرہا ہے۔ خیال رکھنا۔ میں نے ان کا شکریہ ادا کیا اور بتایا کہ ناناپ نے میری رہائش کا انتظام ایک ہوٹل میں کیا ہوا ہے۔ اس لیے میں ارنا کے نمائندوں کے ساتھ ہی جاوں گا۔ ارنا کی طرف ٹریننگ ورکشاپ کے کوآرڈیںٹر محمود جون آئے تھے۔ انہوں نے مجھے اور بی ایس ایس کے رپورٹر غازی الرحمان کو ساتھ لیا اور ایک ہائی روف وین میں ڈاکٹر فاطمی روڈ پر واقع فور اسٹار ھوٹل لے گئے۔ کثیرالمنزلہ ہوٹل کی پیشانی پر ہتل لالہ بین المللی لکھا ہوا تھا۔ مجھے ہوٹل کا باوردی دسویں منزل کے ایک کمرے میں لے کر گیا تو وہاں لاہور سے تعلق رکھنے والے ایک اور پاکستانی صحافی طارق رشید پہلے سے ہی موجود تھے۔ میرے لیے بڑی حیرت کی بات تھی کہ اے پی پی کی نمائندگی تو میں کررہا ہوں ۔ نوائے وقت کا رپورٹر آخر کس کی نمائندگی کررہا ہے۔ طارق رشید نے بتایا کہ وہ بھارتی نیوز ایجنسی اے این آئی کے رپورٹر کے طور پر ورکشاپ میں شریک ہو رہے تھے۔

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here