خار زار صحافت۔۔۔قسط ننانوے

0
995

کارگل کی جنگ

تحریر: محمد لقمان

بارہ جون انیس سو ننانوے کا دن تھا۔ قومی اسمبلی میں وفاقی بجٹ پیش ہو رہا تھا تو دوسری طرف کارگل کے محاذ پر جنگ کی وجہ سے ہونے والی پاک۔ بھارت تلخیوں کو ختم کرنے کے لئے کوششیں بھی جار ی تھیں۔ دہلی کے مختصر دورے پر وزیر خارجہ سرتاج عزیز اور وزیر اطلاعات مشاہد حسین چند صحافیوں کے ساتھ پہنچے تو بھارت کے وزیر اعظم اٹل بہاری واجپائی سے ملاقات نہیں ہوسکی۔ دیگر بھارتی رہنماوں سے گفت و شنید بھی حوصلہ افزا نہیں رہی تھی۔ راقم الحروف اے پی پی کے نمائندے کے طور پر ان کی پاکستان واپسی کو کور کرنے کے لئے جب چک لالہ ایر بیس پہنچا تو وہاں بہت سنجیدہ ماحول تھا۔ پاکستانی وفد جونہی لاونچ میں پہنچا تو ان کے چہرے پر مایوسی واضح طور پر نظر آرہی تھی۔ میں نے اپنے ساتھی رپورٹر ذیشان حیدر کی طرف دیکھا تو انہوں نے بھی سر ھلا کر میرے اندازوں کی تصدیق کی۔ سرتاج عزیز اور مشاہد حسین نے ستے ہوئے چہروں کے ساتھ دورے کے بارے میں بتایا اور صحافیوں کے چند سوالوں کے جواب جلدی جلدی سے دیے۔ اسی پریس کانفرنس میں میری ساتھ والی نشست پر سینیر صحافی نسیم زہرہ بھی موجود تھیں۔ انہوں نے اس دورے کا ذکر اپنی کتاب کارگل سے کو (انقلاب) میں بھی ذکر کیا ہے۔ کارگل کی جنگ جو پاکستان اور بھارت کے درمیان لڑی جانے والی جنگوں میں چوتھی یعنی آخری تھی۔ انیس سو اڑتالیس کی جنگ کشمیر کی طرح محدود علاقے میں لڑی گئی۔ بہت سارے لوگ اسے اگست انیس سو پینسٹھ کے آپریشن جبرالٹر سے تشبیہ دیتے ہیں۔ ان کے مطابق کارگل میں شروع کیے جانے والے آپریشن کوہ پیما بھی کشمیر میں کیے جانے والے آپریشن جبرالٹر کی طرح پاکستان کے لٗے مطلوبہ نتائج پیدا نہیں کر سکا تھا۔ مئی میں شروع ہونے والی جنگ جولاٗئی کے وسط تک جاری رہی۔ دونوں ملکوں پر بین الاقوامی دباو بڑھا تو جنگ بندی کے لٗئے کوششیں بھی شروع ہو گئیں۔ وزیر اعظم نواز شریف نے چار جولائی انیس سو ننانوے کو امریکہ جا کر صدر بل کلنٹن سے ملاقات کی جس میں کارگل جنگ کو ختم کرنے کا طریقہ کار طے کیا گیا۔ پاکستان نے ٹائگر ہل سمیت کارگل سے اپنی فوجیں واپس بلا لیں۔ یوں پاکستان ا ور بھارت کے درمیان چوتھی جنگ اپنے اختتام کو پہنچی۔ اس جنگ میں دونوں ممالک نے بہت بڑا جانی نقصان برداشت کیا۔ اس کے ساتھ ساتھ جنوبی ایشیا میں امن کا عمل بھی بری طرح متاثر ہوا۔ سب سے اہم بات یہ تھی کہ کارگل کے واقعہ کی وجہ سے پاکستان کی سیاسی اور عسکری قیادت کے درمیان دوریاں بڑھیں ۔ اور اس کا نتیجہ چند ماہ کے بعد ملک میں چوتھے مارشل لا کی صورت میں سامنے آیا۔

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here