خار زار صحافت۔۔۔قسط ستتر

0
1536

تربیلا، پشاور اور تورخم
تحریر: محمد لقمان
نو نومبر کو صبح سویرے اسلام آباد سے تربیلا ڈیم کی طرف چل پڑے۔ پاکستان کے سب سے بڑے ڈیم کے بارے جاننے کے لئے تمام غیر ملکی صحافی بیتا ب تھے۔ میں بھی تربیلا دوسری دفعہ جا رہا تھا۔ اس سے پہلے جنوری انیس سو اکیانوے میں وہاں جانے کا موقع ملا تھا۔ سو کلومیٹر سے تھوڑا سا زیادہ فاصلہ طے کرنے میں تین گھنٹے لگ گئے۔ تربیلا جھیل کا اپنا ہی سحر ہے۔ اس بار تربیلا پاور ہاوس کو قریب سے دیکھنے کا موقع ملا تھا۔ سیڑھیاں اتر کر ٹربائنز کو دیکھا۔ جنرل مینجر تربیلا پاور پلانٹ نے پن بجلی کی پیداوار اور اس کی نیشنل گرڈ کو ترسیل کے بارے میں تفصیل سے بتایا۔ اس بار وہاں تعلقات عامہ کے شعبے کے شاعر سربراہ ذوالفقار جعفری موجود نہیں تھے۔ ان کی جگہ لاہور سے آئے کیپٹن (ر) ارشد اور تربیلا میں تعینات ہمارے پرانے دوست جاوید خان نے بریفنگ دی۔ جھیل کے پاس ہی تربیلا کی انتظامیہ نے لنچ کا انتظام کیا ہوا تھا۔ کھانے سے فارغ ہوئے تو پشاور کے لئے روانگی ہوگئی۔ اس بار دو سو کلومیٹر کے قریب سفر تین گھنٹوں میں طے ہوگیا۔ شام کے وقت پشاور کے پوش علاقوں سے گذرے تو وسطی ایشیا سے آئے صحافیوں نے بڑی حیرت کا اظہار کیا۔ پرل کانٹینینٹل پشاور کو دیکھ کر تاجک تاس نیوز ایجنسی کے سلطانوف بولا کہ اس کا خیال تھا کہ پشاور کی ہر عمارت پر طالبان موجود ہوں گے۔ مگر یہاں تو جدید دنیا کی طرح کی عمارتیں ا ور ہوٹل ہیں۔ اس زمانے میں افغانستان میں طالبان کی حکومت تھی۔ اور مغربی دنیا میں ان کے بارے میں تقریباً وہی تاثر تھا جو آج پاکستان سمیت پوری دنیا میں ہے۔ احمد رشید سمیت متعدد افراد طالبان کی رجعت پسندی اور انتہا پسند رویے کے بار ے میں کتابیں لکھ چکے تھے۔ پشاور کے ریڈ زون سے گذرتے ہوئے یونیورسٹی ٹاون پہنچے۔ جہاں ریوالی گیسٹ ہاوس میں رہائش کا انتظام کیا گیا تھا۔ اپنا سامان اپنے اپنے کمروں میں رکھا اور تھوڑا سا سستانے کے بعد فرنٹیر ہاوس کے لئے چل پڑے۔ جہاں اس وقت کے صوبہ سرحد کے وزیر اعلی سردار مہتاب احمد خان نے عشائیے کا اہتمام کیا ہوا تھا۔ ہزارہ سے تعلق رکھنے والے ہندکو سپیکنگ عباسی خاندان کے چشم و چراغ سیاستدان میں کسی طور بھی غرور یا احساس تفاخر نظر نہیں آیا۔ یہی مہتاب احمد خان بعد میں خیبر پختون خوا کے گورنر بھی رہے۔ انہوں نے سب سے ہاتھ ملایا اور کھل کر بات چیت کی۔ فرنٹیر ہاوس میں اس موقع پر طرح طرح روایتی کھانوں کا اہتمام کیا گیا تھا۔ غیر ملکی صحافیوں کو پشتون کلچر بڑا پسند آیا ۔ اس کی تعریف بعد کے دنوں میں بھی کرتے رہے۔ کھانے کے فوراً بعد ریوالی ریسٹ ہاوسن کے لئے روانہ ہوگئے۔ سب کو فوری طور پر سونے کی ہدایت کی گئی تھی۔ کیونکہ اگلی صبح خیبر ایجنسی اور پاک۔ افغان سرحد پر واقع طورخم چیک پوسٹ جانا تھا۔

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here