خار زار صحافت۔۔۔قسط ایک سو آٹھ

0
672

مشرف کا ٹیکس سروے اور تاجروں کی مزاحمت
تحریر: محمد لقمان

پاکستان میں جب بھی کو ئی نئی حکومت آتی ہے تو وہ ملک کی تمام تر ناکامیوں کی ذمہ دار پچھلی حکومت کو گردانتی ہے۔ یہی کچھ فوجی سربراہ جنرل پرویز مشرف کی حکومت نے کیا۔ مئی دو ہزار کے اواخر میں ملک کے چیف ایگزیٹو نے اعلان کیا کہ نواز شریف کی ختم ہونے والی حکومت کی پالیسیوں کی وجہ سے ملک پر اڑتیس ارب ڈالرز کا قرضہ ہے اور ٹیکس کے محصولات اس کے مقابلے میں بہت تھوڑے ہیں۔ اس لئے ٹیکس اور جی ڈی پی کے تناسب کو بڑھانے کے لئے تیرہ بڑے شہروں میں ٹیکس سروے کیا جائے گا۔ سروے کرنے والی ٹیموں میں فوجی اہلکار اور ایف بی آر کے حکام شامل ہوں گے۔ ان ٹیموں کو ہر تاجر اور صنعتکار سے ان کے اسٹاکس، خریداری، یوٹیلیٹی بلز اور ملازمین کی تعداد کے بارے میں پوچھنا تھا۔ فارم نہ بھرنے کی سزا تین ماہ اور جھوٹ بولنے کی سزا پانچ سال قید تھی۔ جونہی لاہور، کراچی ، فیصل آباد اور دیگر بڑے شہروں میں ٹیکس سروے شروع ہوا اور ٹیمیں دکاندار وں سے پوچھ تاچھ کرنے لگیں تو غیر متوقع طور پر فوجی حکومت کو سخت مزاحمت کا سامنا کرنا پڑا۔ اس بار انجمن تاجران کے حاجی مقصود بٹ کی بجائے کراچی کے عمر سیلیا اس مزاحمتی تحریک میں آگے آگے تھے۔ تمام بڑے شہروں میں تاجروں نے اپنی دکانوں کے شٹر گرادیے۔ یہ ہڑتال کئی ہفتے جاری رہی۔ تاجروں کا اپنا موقف تھا کہ حکومت ٹیکس سروے کی بجاٗے ایف بی آر میں کرپشن کو ختم کرے۔ اس کے برعکس حکومت کا استدلال بھی حقیقت کے قریب تھا کہ ملک میں پچیس لاکھ سے زیادہ تاجر ہیں مگر ان میں سے صرف ساڑھے سترہ ہزار سیلز ٹیکس کے لئے رجسٹرڈ تھے۔۔ بہر حال ٹیکس سروے مشرف سے وزیر خزانہ شوکت عزیز کے لٗے ایک چیلنج رہا۔ اس دور میں کتنی بڑی ہڑتالیں ہوئیں۔ اس کا انداز ہ اس واقعے سے لگایا جاسکتا ہے۔ شاید جون کے پہلے ہفتے کی بات ہے کہ ایک دن پی آئی ڈی حکام نے سرکاری میڈیا۔۔۔اے پی پی، پی ٹی وی اور ریڈیو پاکستان کے نمائندوں کو لارنس روڈ پر ایک سرکاری دفتر میں پہنچنے کو کہا۔ اے پی پی کی طرف سے میں وہاں پہنچا تو پی ٹی وی کے کیمرہ مین، ریڈیو پاکستان کے پروڈیوسر اور پی آئی ڈی کے افسر کے علاوہ روزنامہ خبریں سے منسلک میجر ریٹائرڈ طاہر بھی موجود تھے۔ اس سرکاری دفتر کے ایک افسر نے ہمیں ایک لیکچر دیا اور کہا کہ ملکی معیشت کو نقصان پہنچانے والی اس ہڑتال کو ناکام بنانا ہے۔ اس حب الوطنی کے کام میں میڈیا کو اپنا کردار ادا کرنا ہوگا۔ ہمیں جو ذمہ داری تفویض کی گٗئی کہ ہم نے اس مکمل ہڑتال کو جزوی ہڑتال ظاہر کرنا تھا۔ پی آئی ڈی کی گاڑی میں ہم نے پورا لاہور شہر چھان مارا مگر ایک بھی دکان کھلی نہ ملی۔ اچانک پی آئی ڈی کے افسر کو کسی علاقے میں دکانیں کھلی ہونے کی اطلاع آئی تو اس نے اللہ کا شکر ادا کیا اور گاڑی کو فیروز پور روڈ پر موڑنے کو کہا ۔ جنرل ہسپتال کا اوور ہیڈ برج کراس کیا تو اسماعیل نگر کے بازار میں دو سے تین دکانیں کھلی نظر آئیں۔ جن کی پی ٹی وی نے فوٹیج بنائی ، راقم نے جزوی ہڑتال کی خبر لکھی جو کہ بعد میں تمام سرکاری میڈیا میں چلی اور نجی اخبارات میں چھپی۔ ایسی مکمل ہڑتال بعد کے دنوں میں بہت کم دیکھنے میں آئی ہے۔ ہڑتال ختم ہوئی تو حکومت نے عمر سیلیا کا توڑ نکالنے کے لٗے کوششیں شروع کردیں۔ بالآخر فوجی حکومت کو وہ انمول رتن مل گئے جو کہ عمر سیلیا اور تاجروں کی دیگر مزاحمتی تنظیموں کا مقابلہ کرسکتے تھے۔ انہوں نے سرکلر روڈ لاہور کے کیمیکلز کے تاجر شیخ محمد مشتاق کی سربراہی میں ایک نئی تنظیم پاکستان قومی تاجر اتحاد کی داغ بیل ڈال دی۔ عنصر ظہور بٹ اس تنظیم کے سیکرٹری جنرل تھے۔ سرکار کی طاقت کا تو مقابلہ نہیں کیا جاسکتا۔ آنے والے دنوں انجمن تاجران سمیت دیگر تنظیموں کے ارکان بھی جوق در جوق اس میں شریک ہوتے گئے۔ مشرف حکومت کا ٹیکس سروے تو کامیاب نہ ہوا مگر مزاحمتی تنظیموں کی بھی طاقت ختم ہو گئی۔ پاکستان قومی تاجر اتحاد کا مشرف کی حکومت کے آخری ایام تک کافی زور میں رہا۔

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here