ایرانی پارلیمنٹ مجلس کی کاروائی دیکھی
تحریر: محمد لقمان
جب ورکشاپ کے شرکا ترقیاتی صحافت پر کئی روز لیکچر سننے کے بعد تنگ آگئے تو ایک صبح کوآرڈینیٹر محمود جون نے خوشخبری سنائی کہ آج ایرانی پارلیمنٹ مجلس کی سیر کروائی جائے گی۔۔۔بڑے خوش ہوئے کہ چلو ایران کے سیاسی نظام کو سمجھنے کا موقع ملے گا۔ تھوڑی دیر کے بعد تمام شرکا کو بس کے ذریعے وسطی تہران میں مجلس کی عمارت میں لے جایا گیا ۔ عمارت کی مختلف دیواروں پر متعدد افراد کی تصاویر دیکھنے کو ملیں۔ پوچھنے پر بتایا گیا کہ یہ ان تمام ارکان پارلیمنٹ کی تصاویر ہیں جو کہ انقلاب ایران کے کچھ عرصہ بعد باغی تنظیم مجاہدین خلق کے حملے میں جاں بحق ہوگئے تھے۔ سب کو پارلیمنٹ کی مہمانوں کی گیلری میں لے جایا گیا۔ پارلیمنٹ کے سیشن کی صدارت سفید ریش سپیکر علی ناطق نوری کر رہے تھے۔ بتیا گیا کہ پارلیمنٹ میں انسانی اعضا کے عطیہ اور خون کے انتقال کے نئے قانون پر بحث ہورہی ہے۔ دلچسپ بات یہ تھی کہ کسی قسم کا شور شرابہ نہیں تھا۔ نہ تو کوئی کسی پر چلا رہا تھا نہ ہی کاغذ پھاڑ کر ہوا میں اڑائے جا رہے تھے۔ پاکستانی پارلیمنٹ کے اجلاس کی کاروائی دیکھنے والوں کے لئے یہ ایک بڑا بور اجلاس تھا۔ ایوان میں نظر ادھر ادھر دوڑائی تو صاف رنگ کے سینکڑوں ایرانیوں کے درمیان تین چار افراد ایسے نظر آئے جو نہ صرف سانولے تھے۔ بلکہ شلوار قمیص بھی پہنے ہوئے تھے۔ بڑی حیرانگی ہوئی کہ ایران کی پارلیمنٹ میں پاکستانی کہاں سے آگئے۔ ایرانی کوآرڈینیٹر نے بتایا کہ ان ارکان اسمبلی کا تعلق پاکستانی بلوچستان سے متصل ایرانی بلوچستان سے ہے۔ پارلیمنٹ سے باہر آئے تو ایرانی میزبان ہمیں تہران میٹرو دکھانے کے لئے لے گئے۔ 1993 میں ابھی انڈر گراونڈ میٹرو ٹرین کا پہلا اسٹیشن تعمیر ہوا تھا۔ اسٹیشن پر پہنچے تو ایسے لگا کہ جیسے کسی یورپی ملک میں آگئے ہیں۔ عراق کے ساتھ جنگ ختم ہوئے ابھی پانچ سال ہوئے تھے۔ ایرانی معیشت کی کوئی اچھی حالت نہیں تھی۔ معاشی حالت خراب ہونے کے باوجود بھی ایران کی حکومت نے ماس ٹرانزٹ کے اس منصوبے کو جاری رکھنے کا فیصلہ کیا تھا۔ تقریباً بیس سال کے بعد لاہور کی میٹرو بس سروس شروع ہوئی تو جو رد عمل پاکستان میں آیا۔ بڑا افسوس ناک تھا۔ میٹرو اسٹیشن سے نکلے تو میرے دل میں صرف ایک ہی خواہش پیدا ہوئی کہ کاش پاکستان میں بھی ایسا نظام ہو۔ اس خواب کو پورا ہونے میں کم ازکم دو دہائیاں تو لگ ہی گئیں۔