رشوت کے کانٹوں سے کیسے دامن بچے
تحریر: محمد لقمان
لاہور میں ابھی آئے چند ہفتے ہی ہوئے تھے کہ مسلم ٹاون موڑ کے پاس ایک مذہبی جماعت کے دفتر میں ہونے والی پریس کانفرنس کی کوریج کے لئے بھیج دیا گیا۔ وہاں میرے علاوہ دی مسلم کے رپورٹر جاوید محمود کے علاوہ اردو اور انگریزی زبان کے متعدد اخبارات کے نمائندے موجود تھے۔ ابھی پریس کانفرنس شروع نہیں ہوئی تھی کہ ایک صاحب کمرے میں داخل ہوئے اور ہر کسی کو ایک ایک لفافہ پکڑانا شروع کردیا۔ میں نے پہلے سوچا کہ اس لفافے میں پریس ریلیز ہوگی۔ مگر جب میں ہر شخص کو اس کو کھولنے کے بعد عجب اطمینان میں دیکھا تو تجس پیدا ہوا۔ کھولا تو اس میں سو سو روپے کے تین نوٹ تھے۔ میں نے اور جاوید محمود نے فیصلہ کیا کہ پیسے واپس کردیے جائیں۔ لفافہ بانٹنے والے شخص کو بلایا اور اپنے لفافے واپس کردیے۔ اس نے وجہ پوچھی تو بتایا کہ ہمیں ایسی رقم کی ضرورت نہیں۔ ہم نے روپے واپس کیے تو وہاں پر آئے چھوٹے اخباروں کے رپورٹرز اور فوٹو گرافرز نے برا منایا۔ خصوصاً فوٹو گرافرز کو کیپشن سے محروم ہونا کسی طور گوارا نہیں تھا۔ آج سے اٹھائیس انتیس پہلے بھی فوٹو گرافر کیپشن کے نام پر ہی پیسے لیتے تھے۔ آج کل بھی ہر پریس کانفرنس یا ایونٹ کے بعد کیمرہ مین ایونٹ کے منتظم کے ارد گرد چکر کاٹتے رہتے ہیں اور جب تک کیپشن نہ ملے اس کی جان نہیں چھوڑتے۔ اس واقعے کے بعد میری اور جاوید محمود کی دوستی ہوگئی۔ بعد میں جاوید محمود نیشن اخبار میں آگئے اور کچھ سال پہلے تو کراچی میں نیشن کے ریزیڈنٹ ایڈیٹر بھی رہے۔ اس سے بھی عجیب و غریب بات ریگل چوک میں شیزان ریسٹورینٹ میں ایک پریس کانفرنس میں ہوئی۔ جب میں پریس کانفرنس میں پہنچا تو ایک سوٹڈ بوٹڈ گورے چٹے صحافی نے ہاتھ ملایا اور گلے لگایا۔ مجھے بتایا کہ وہ روزنامہ مساوات سے ہیں ۔ اور کہا کہ اگر وہ چہلم کی خبر بھیجیں تو کیا میں اے پی پی کے ذریعے اخبارات میں چھپوا دوں گا۔ میں نے کہا کہ کیوں نہیں۔ تھوڑی دیر کے بعد وہ پریس کانفرنس کرنےوالے شخص کے پاس صوفے پر بیٹھ گئے۔ انہوں نے مجھ سے اشارے کے ذریعے دوبارہ پوچھا کہ کیا میں خبر چھپوا دوں گا۔ میں نے سر کو ہلا کر مثبت جواب دیا۔ اس واقعے کو تقریباً ایک ہفتہ گذرا تو دفتر کے پی ٹی سی ایل نمبر پر ایک شخص کا فون آیا ۔ انہوں نے پوچھا کہ میری پریس کانفرنس کی خبر اے پی پی کے ذریعے کسی اخبار میں نہیں چھپی۔ میں نے بتایا کہ خبر اے پی پی سے ریلیز ہوئی تھی۔ چھاپنا یا نہ چھاپنا تو اخبارات کا کام ہے۔ اس پر وہ ناراض ہوگئے اور کہا کہ انہوں نے میرے لیے سلیم بٹ کو پانچ سو روپے دیے تھے۔ روپے ملنے کے بعد تو خبر چھپنی چاہیے تھی۔ بڑی مشکل سے ان کو سمجھایا کہ میں نے نہ تو رقم وصول کی تھی اور نہ ہی مجھے اس خبر کے بارے میں پتہ تھا۔ بعد میں مجھے کسی نے بتایا کہ لاہور کے میڈیا میں ایسے بڑے وارداتیے ملیں گے۔ ہوشیار رہنا رپورٹر کا کام ہے۔ اس کے بعد بھی جانے اور انجانے میں کوئی نہ کوئی بیچتا ہی رہا ہے۔ ایک غیر معروف اخبار سے منسلک صحافی ندیم چشتی تھے۔ جو بتا کر اے پی پی کے ذریعے خبر چھپوانے کی درخواست کرتے تھے کہ وہ اس کے پیسے اپنے کلائنٹ سے لے کر کھا چکے ہیں۔ خبر تو خبر ہوتی ہے۔اس نے رشوت سے بھی چھپنا ہوتا ہے اور بغیر رشوت کے بھی۔ شروع کے واقعات کے بعد میں بہت محتاط ہوگیا۔ مجبوراً کئی مرتبہ سوونیراورشیلڈز تو تو لینی پڑ جاتیں مگر خدا کا شکر ہے لفافوں سے اللہ نے دور ہی رکھا۔ کامرس کی بیٹ کے دوران کئی ایسے صنعتکار ملے جن سے صرف سلام دعا کا مطلب ہی لفافہ کلب میں داخلہ سمجھا جاتا تھا۔ ایسے صنعتکاروں سے میں نے دور رہنے میں عافیت جانی ہے۔ ایک دفعہ تو ایک صنعتکار نے کہا کہ آپ نے کبھی مجھ سے کام نہیں لیا میں آپ پر کیسے ٹرسٹ کرسکتا ہوں۔ ایسی بات کے جواب میں تو صرف خاموش ہی رہا جاسکتا ہے۔