خارزار صحافت ۔۔۔۔قسط نو

0
3012

اے پی پی ٹریننگ : کچھ دلچسپ یادیں

تحریر: محمد لقمان

ایک صبح ھاسٹل سے اے پی پی کے ہیڈ کوارٹر پہنچے تو تھوڑی دیر کے بعد ہی  افراتفری شروع ہوگئی۔۔ کبھی ڈائریکٹر جنرل سیڑھیاں اتر کر نیوز روم آرہے تھے تو کبھی ڈائریکٹر نیوز اور ڈیسک انچارج اوپر کی منزل پر جارہے تھے۔ گویا کہ ایک عجب منظر تھا۔ کئی گھنٹے تک ہم نوواردوں  کو پتہ ہی نہ چلا کہ ہوا کیا ہے۔ آخر کار کسی نے بتایا کہ وزیر اعظم نواز شریف کے خلیجی دورے کے بارے میں ایک خبر میں ایک ایسی غلطی چلی گئی ہے جو اگر چھپ جاتی تو پورے ادارے کا وجود خطرے میں پڑ سکتا تھا۔ ہوا کچھ یوں کہ نواز شریف نے  یکم نومبر 1990 کو اپنے عہدے کا حلف اٹھایا اور کچھ روز بعد خلیجی ممالک کے دورے پر چلے گئے۔ اس دورے کے دوران ان کو کتنے تحائف ملے اس پر ایک سوال قومی اسمبلی میں آگیا۔ جواب میں بتایا گیا کہ وزیر اعظم کو دورے کے دوران اتنے ہزار ڈالرز کے تحائف دیے گئے تھے۔ اس انگریزی خبر کو ٹیلی پرنٹر پر ٹائپ کرنے والے ٹی پی او کے دماغ میں نجانے کیا خبط سمایا تھا کہ اس نے بجائے گفٹس کے گرلز لکھ دیا ۔ جس کا اردو میں مفہوم یہ بنتا تھا کہ وزیر اعظم نواز شریف کو خلیجی ممالک کے دورے کے دوران اتنے ہزار ڈالرز کی لڑکیاں فراہم کی گئیں۔  اے پی پی کی خوش قسمتی کہ اس زمانے میں پاکستانی اخبارات کے علاوہ  اے ایف پی اور رائٹرز جیسی غیر ملکی خبر رساں ایجنسیز میں بھی اس کی خبر جاتی تھی۔ اے پی پی کے سابق سینیر رپورٹر راجہ محمد اصغر جو کہ ان دنوں ان دونوں نیوز ایجنسیز میں سے کسی ایک میں تھے۔ انہوں نے اے پی پی فون کیا اور پوچھا کہ کیا ڈیسک والوں نے بھنگ پی رکھی ہے۔ ذرا وزیر اعظم کے بارے میں خبر تو دوبارہ دیکھ لیں۔ یوں پہلے والی خبر کل کروا کر یعنی  واپس لے کر نئی خبر جاری کی گئی۔  اسی طرح ایک دن ایم آفتاب ڈائریکٹر نیوز سینٹرل ڈیسک پر آئے تو انہوں نے ایک خبر میں غلطی دیکھی اور اس پر وہاں پڑے رجسٹر میں سب ایڈیٹر جلال الدین کو جواب دینے کی ہدایت کی۔ جس پر ڈیرہ اسماعیل خان سے تعلق رکھنے والے جلال الدین نے لکھا کہ یہ ان کی فالٹ یعنی غلطی نہیں ہے۔ فالٹ کے سپیلنگز انہوں نے ایف اے ایل ٹی لکھ دئے جس پر ایم آفتاب اور تپ گئے اور نیوز روم میں باآواز بلند کہا کہ جس کو فالٹ کے صحیح سپیلنگز نہیں آتے اس کو اپنی غلطی کا کیسے احساس ہوسکتا ہے۔   ایک اور بڑی دلچسپ یاد  اے پی پی کے سپر مارکیٹ کے دفتر کے ساتھ  موجود ایک کینٹین کے بارے میں ہے ۔ جس کا مالک ظفر نامی پنڈی وال تھا۔ وہ ہرروز اپنے ملازم کو بلاتا تو ایسے لگتا کہ وہ اسے ماں بہن کی گالی دیتا ہے۔ ایک دن میں نے اسے کہا کہ یار اتنا پیارا بچہ ہے اور تمہارا بہت فرماں بردار ہے۔ اس کو گالیاں کیوں دیتے ہیں۔ اس نے کہا کہ اس کا نام ماجود ہے میں اسے اس کے نام سے پکارتا ہوں۔ بعد میں جب بس پوٹوہاری النسل کنڈکٹرز کو صدر کی بجائے صدور پکارتے دیکھا تو بات مزید سمجھ آگئی کہ ماجد کو ماجود کیوں کہتا تھا۔

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here