تحریر: محمد لقمان
تربیلا کی جھیل کا اپنا ہی سحر ہے۔ میری اس جھیل سے پہلی بار شناسائی جنوری 1991 میں ہوئی جب سرکاری خبر رساں ادارے، اے پی پی کے زیر تربیت صحافی کی حیثیت سے میں نے پاکستان کے سب سے بڑے پن بجلی منصوبے تربیلا پاور اسٹیشن کا دورہ کیا۔ ہمارے گروپ میں پاکستان کے مختلف علاقوں سے منتخب کیے گئے 21 لڑکے اور لڑکیاں تھے ۔ مجھے تو جیسے اس جھیل سے پہلی ہی نظر میں محبت ہو گئی تھی۔ ہمارے گروپ میں ہنزہ سے تعلق رکھنے والے کریم مدد بھی تھے۔ جو کہ جھیل کے پاس کے پہاڑ پر بغیر رکے چڑھتے گئے۔ اے پی پی کے ٹریننگ انسٹرکٹر کے بار بار بلانے پر ہی واپس آئے۔
اس وقت واپڈا حکام نے جہاں اس آبی ذٰخیرے پر بریفنگ دی تو تربیلا میں تعلقات عامہ کے شعبے کے سربراہ ذوالفقار جعفری اپنی شعر و شاعری سے دل گرماتے رہے۔ بعد میں بھی تربیلا کی جھیل کے مناظر میرے لیے ایک سکون کی علامت رہے ہیں۔ سما ٹی وی کے صحافی کے طور پر چند سال پہلے بھی تربیلا کا دورہ کرنے کا موقع ملا مگر چند گھنٹے کے قیام کے دوران زیادہ وقت پاور ہاوس کے اندر ہی گذرا۔ اس بار فروری کے وسط میں تربیلا پاور ہاوس کے چوتھے توسیعی منصوبے کی دورے کے لئے دعوت ملی تو بیٹا اور بیٹی کے امتحانات کی وجہ سے پہلے تو انکار کرنے کو جی چاہا مگر تربیلا جھیل کا فسوں جیسے سر پر طاری ہوگیا۔ اور ہاں کہنے میں ہی غنیمت جانی۔ 27 سال کے بعد سفر دو لحاظ سے مختلف تھا۔ اولاً موٹر وے کی وجہ سفر بہت تیز اور آسان تھا اور ثانیاً کسی اخبار یا نیوز ایجنسی کی بجائے ٹی وی کے لئے منصوبے کے آغاز کی کوریج کرنی تھی۔ کیمرہ مین جواد یحیی کا یہ تربیلا ڈیم کا پہلا دورہ تھا۔ اس لیے اس کا جوش و جذبہ بھی دیدنی تھا۔ ایم ٹو موٹر وے پر وسطی پنجاب کے سرسبز کھیتوں کے نظارے کرتے ہوئے پوٹوہار میں داخل ہوئے تو فصلیں کم تو پہاڑ زیادہ تھے۔ نا ہموار زمین کی وجہ کھیت بہت بہت چھوٹے رہ گئے تھے۔ بڑے پاٹ کے دریائے جہلم کے بعد سواں، دھراب اور ہرو دریا کسی ندی نالے سے زیادہ نہ تھے۔ چکری کے مقام پر ایم ٹو کا اختتام ہوا تو اسلام آباد۔پشاور موٹر وے ایم ون کا آغاز ہوگیا۔ راستے میں برہان انٹر چینج آیا تو سب کو تحریک انصاف کے دوسرے دھرنے کے دوران وزیر اعلی خیبر پختون خوا پرویز خٹک کے قافلے کے اسلام آباد جانے کی کوشش میں پولیس سے جھڑپیں یاد آگئیں۔
(جاری ہے)