خار زار صحافت۔۔۔قسط ایک سو اٹھایئیس

0
560


کچھ مکہ شہر کے بارے میں
تحریر: محمد لقمان

مکہ میں ہفتہ بھر قیام کے دوران ہر روز پانچوں نمازیں مسجد الحرام میں پڑنے کا موقع ملا۔ سب سے زیادہ مزے کا ماحول صبح فجر کے وقت ہوتا۔ صبح کاذب کو صبح صادق میں بدلنے کا منظر واقعی قابل دید ہوتا ہے۔ جب صبح سویر ے مسجد میں پہنچتے تو وہاں مکہ کے عمر رسید ہ عرب اپنے بیٹوں اور پوتوں کے ساتھ موجود ہوتے۔ ان کے ہاتھوں میں قہوے سے بھرے بر تن اور کھجور کا حلوہ ہوتا تھا۔ وہ مسجد کے صحن میں چٹائی بچھا دیتے اور بلا لحاظ نسل و زبان تمام حاضرین کو چٹائی پر بٹھاتے اور اپنے ہاتھوں سے قہوہ اور حلوہ پیش کرتے۔ ان کے بارے میں پتہ چلا کہ یہ حضرات مکہ کے متمول گھرانوں سے تعلق رکھتے تھے اور حجاج اور معتمرین کو اللہ کا مہمان سمجھ کر ان کی خدمت کرتے تھے۔ مکہ میں قیام کے دوران ان مقامات پر بھی جانے کا موقع ملا جہاں جانا عموماً حج کا حصہ سمجھا جاتا ہے۔ اس کے لیئے الایئیڈ بینک کے مقرر کردہ ٹور آپریٹر نے ٹرانسپورٹ کا انتظام کر رکھا تھا۔ سب سے پہلے منی لے کر گئے جو کہ مکہ سے پانچ کلومیٹر کے قریب فاصلے پر واقع ہے۔ یہ پہاڑوں کے درمیان ایک میدان ہے جس میں حجاج کرام آٹھ کے علاوہ گیارہ، بارہ اور تیرہ ذی الحجہ کو قیام کرتے ہیں۔ قریب ہی جمعرات یعنی تین شیطان بھی ہیں۔ ان کنکریٹ سے بنے پلرز کو جمرہ اولی، جمرہ وسطی اور جمرہ عقبہ یا جمرہ کبری کہتے ہیں۔ ان کو حجاج کنکریاں مارتے ہیں۔ہمارے گروپ میں شامل ایک شخص تو اتنا جذباتی ہوگیا کہ کنکریوں کے ساتھ ساتھ اپنا جوتا بھی شیطان کو دے مارا۔ عجیب بات ہے کہ ہم اس استعاری شیطان کو مارتے مارتے اپنے اندر کے شیطان کو کم ہی بے دخل کرتے ہیں۔ اس کے علاوہ میدان عرفات بھی جانے کا موقع ملا۔ یہ جگہ مکہ سے آٹھ سے نو کلومیٹر دور ہے۔ جہاں حج کے دن زوال کے بعد امام خطبہ دیتا ہے۔ اور یہاں ظہر اور عصر کی نمازیں ادا کی جاتی ہیں۔ وقوف عرفہ کو حج کا سب سے بڑا رکن قرار دیا جاتا ہے۔ غار حرا بھی لے کر جایا گیا مگر دور سے ہی دکھایا گیا۔ غار ثور کا بھی دور سے سے بتا دیا گیا۔ اس کے علاوہ جبل رحمت بھی ایک اہم مقام ہے۔ اب تھوڑا سا ذکر مکہ شہر کا۔۔ مکہ میں پاکستانی عموماً مسجد الحرام کے علاوہ جہاں زیادہ نظر آتے ہیں وہ الیکٹرونکس اور سونے کے زیورات کی دکانیں ہیں۔ مکہ کے مقامی افراد اور دیگر ممالک سے تعلق رکھنے والے تاجروں کے مطابق حاجی اور معتمرین صرف سیاح ہیں۔ جن سے جتنا بھی منافع کمایا جائے جائز ہے۔ یہی وجہ ہے کہ مکہ یا سعودی عرب کے کسی بھی شہر میں سوائے کھانے پینے کی اشیا کے، پرایئس کنٹرول کا موثر نظام نظر نہیں آتا۔ سفید عرب لباس میں ملبوس جیولرز آپ کو خوش آمدید کہیں گے اور اپنے پاکستانی، انڈین یا بنگلادیشی ملازمین کی معاونت سے کوئی نہ کوئی جیولری بیچ دیں گے۔ آپ کو کتنا مہنگا یا خالص سونا ملا اس کا اندازہ صرف پاکستان میں واپس آ کر ہی ہوتا ہے۔ زیورات کے علاوہ ایک نمبر جاپانی الیکٹرونکس کا بھی مکہ میں ملنا ایک خواب ہی ہوتا ہے۔ زیادہ تر چینی ساختہ سامان ہی ملے گا۔ خریداری کے لئے دو ہزار تین میں ھجرت اسٹریٹ اور ابراہیم خلیل اسٹریٹ اہم علاقے تھے۔ اب پتہ نہیں مکہ کتنا بدل گیا ہے۔ سب سے زیادہ سستی چیز اس زمانے میں پیپسی کا ایک ٹن تھا جو کہ وینڈنگ مشین سے ایک سعودی ریال کے بدلے نکل آتا تھا۔ حرم کے نواح میں بنی داود شاپنگ پلازہ کے علاوہ پاکستانی ، بھارتی اور بنگلادیشی ہوٹلوں سے ہر طرح کے کھانے مل جاتے ہیں۔ صبح کے ناشتے میں سری پائے دستیاب تھے تو دوپہر کو اپنی مرضی کے کڑھی پکوڑا بھی کھاسکتے تھے۔ اس کے علاوہ مکہ کے پرانے محلے مسفلہ اور کبوتر چوک بھی اس وقت ابھی توسیع کا حصہ نہیں بنے تھے۔ کبوتر چوک میں میں میں دفتر کے درجنوں ساتھیوں اور ہمسایوں کی طرف سے سینکڑوں روپے باجرہ خرید کر کبوتروں کو کھلایا مگر ان لوگوں کے لئے پرندوں کا اد کھایا دانہ واپس پاکستان نہ لا سکا۔ کبوتر وں کو دانا کھلانے کے لیئے پاکستانی کتنے مقبول تھے۔ اس کا اندازہ نایئجیریا اور سوڈان کی عورتوں کو کبوتر دانہ کبوتر دانہ کی آوازیں لگاتے ہویئے دیکھ کر لگایا جاسکتا تھا۔
(جاری ہے)

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here