خار زار صحافت۔۔۔قسط ایک سو ستائیس

0
615


جب کعبے پر پہلی نظر پڑی
تحریر: محمد لقمان

مسجد الحرام میں باب ملک عبدالعزیز یا گیٹ نمبر ایک سے داخل ہویئے۔ گیٹ کے ساتھ بنی ڈیوڑی میں بنے ریکس میں جوتے رکھے ۔ جونہی متعاف کے علاقے میں داخل ہوئے تو خانہ کعبہ پر پہلی نظر پڑی۔ کہا جاتا ہے کہ آپ کے دل میں جو بھی نیک خواہش ہو، اس کی دعا خانہ کعبہ پر پہلی نظر پڑتے ہی کی جائے تو فوراً قبول ہوجاتی ہے۔ مگر میں اپنے رب کے گھر کو دیکھنے میں اتنا مگن ہوگیا کہ مجھے کسی دعا مانگنے کا ہوش ہی نہیں رہا۔ گیٹ نمبر ایک سے داخل ہوں تو سامنے خانہ کعبہ کا رکن یمانی نظر آتا ہے اور اس سے تھوڑا آگے حجر اسود ہے۔ جہاں سے طواف کا آغاز کرنا ہوتا ہے۔ جون کے مہینے میں صبح سویر ے ہلکی ہلکی ہوا چل رہی ہو تو اس کا اپنا ہی مزہ ہوتا ہے۔ ایسی ہی صورت حال مسجد الحرام میں تھی۔ خیر نماز فجر ادا کی اور اس کے بعد عمرے کے مختلف مراحل کا آغاز ہوگیا۔ میری بیگم نے ننھے عبیدالحنان کو اٹھایا ہوا تھا۔ دو سال کے بچے کے لئے تو ہر چیز دلچسپ تھی اور وہ آنکھیں کھولے ہوئے لوگوں کو طواف کرتے دیکھ رہا تھا۔ میرے سسر اور ساس بھی ہمارے پاس طواف کے آغاز کے لئے پہنچ گئے تھے۔ بہت رش تھا اس لیے حجر اسود کا بوسا لینا ممکن نہں تھا۔ اس لیے دور سے بوسے کا اشارہ کیا اور پہلے طواف کا آغاز ہوگیا۔ ہر طواف کا آغاز حجر اسود کے سامنے ہوتا ہے اور اختتام رکن یمانی پر ہوتا ہے۔ خانہ کعبہ کے چار کونے ہیں۔ ان میں ایک رکن یمانی، دوسرا رکن عراقی، تیسا رکن شامی اور چوتھا رکن شرقی کہلاتا ہے۔ مختلف مسنون دعائیں پڑتے ہوئے سات طواف کرنے ہوتے ہیں۔ طواف مکمل ہوئے تو مقام ابراہیم پر نوافل پڑے۔ اس کے بعد سعی کے لئے صفا اور مروہ کے علاقے میں چلے گئے۔ اب میں نے عبیدالحنان کو اپنے کندھوں پر اٹھا لیا تھا۔ جب جب میں اخضر الملیین ( سبز روشنیوں) کے حصے میں اماں حاجرہ کی سنت کی پیروی کرتے ہوئے تھوڑا سا دوڑتا تو بچہ ہنسنے لگتا۔ بہرحال دعائیں پڑھتے ہوئے سعی کو مکمل کیا۔ یوں عمرہ کے تمام مراحل خیریت سے مکمل ہوگئے۔ اب سر کو منڈوانے کا عمل باقی رہ گیا تھا۔ ہمارے پاس ایک قینچی تھی جس سے میں نے اپنی بیگم کے بالوں کی ایک لٹ تھوڑی سی کاٹ دی۔ یوں اس کا عمرہ مکمل ہوگیا۔ مگر مجھے اور میرے سسر کو حلاقہ کے لئے باربر کے پاس جانا ہی تھا۔ ہم نے خواتین کو باب عبدالعزیز پر انتظار کرنے کو کہا اور خود باب عمرہ کے باہر واقع باربر شاپ پر پہنچ گئے۔ اس زمانے میں باب عمرہ کے باہر گوجرانوالہ اور ملتان سے تعلق رکھنے والے افراد کی باربر شاپس تھیں۔ گوجرانوالہ سے تعلق رکھنے والے ایک باربر کے پاس گئے تو اس کے پاس پہلے ہی کئی معتمرین موجود تھے۔ خیر باری آئی تو اس نے ہمارے سر وں پر ہیر ریموونگ شیمپو ڈال کر بالوں کو نرم کیا اور استرے سے مکمل طور پر فارغ البال کردیا۔ ہم دونوں نے دس دس ریال دیے ا ور یوں عمرے کا آخری مرحلہ بھی مکمل ہوا۔ باب ملک عبدالعزیز سے خواتین کو لیا اور ناشتے کے لئے کسی ریسٹورینٹ کو تلاش کرنے لگے۔ ایک ریسٹورینٹ لیال الشام نظر آیا ۔ اس پر موجود ملازم سے پوچھا کہ ناشتے میں کیا کیا مل سکتا ہے تو اس نے فول اور روٹی کا بتایا۔ فول کے بارے میں پوچھا تو بتایا گیا کہ یہ ایک دال سے بنی ڈش ہے۔ خیر ہم چاروں افراد نے یہ ناشتہ کیا۔ کھانا اتنا مزیدار لگا کہ ہم نے دو دو روٹیاں کھا لیں۔ بعد میں اندازہ ہوا کہ پچھلے بارہ گھنٹے کے سفر اور عبادات کے دوران بھوکا رہنے کی وجہ سے یہ کھانا مزید ار لگا تھا۔ انگریزی کا محاورہ کہ ھنگر از دی بیسٹ ساس، پہلی دفعہ درست محسوس ہوا تھا۔ کھانے کے بعد ہوٹل پہنچ گئے۔ الارم لگا کر بستر پر لیٹ گئے۔ ابھی نماز ظہر میں کم از کم چار سے پانچ گھنٹے باقی تھے۔
( جاری ہے)

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here