خار زار صحافت۔۔۔قسط ایک سو دو

0
937


ملینیم بگ۔۔۔صدی کے بدلنے پر ایک سازشی مفروضہ
تحریر: محمد لقمان
دسمبر انیس سو ننانوے کا مہینہ جو ں جوں اختام پذیر ہو رہا تھا۔۔پاکستان سمیت دنیا بھر کی کم عمر آئی ٹی کی صنعت میں ایک بے چینی بڑھ رہی تھی۔۔یہ افواہ بڑی عام تھی کہ سال دو ہزار شروع ہونے کے ساتھ ہی دنیا بھر میں کمپیوٹر کریش ہو جائیں گے۔۔ اور سارا ڈیٹا ضائع ہو جائے گا۔ ایسوسی ایٹیڈ پریس آف پاکستان کا ننھا منا آئی ٹی سیکشن بھی دن رات اس کوشش میں تھا کہ تمام ڈیٹا محفوظ کر لیا جائے۔ فلاپی ڈسکس پر تمام ٹیکسٹ محفوظ کیا جا رہا تھا۔ اس سارے مسئلے کو مختلف نام دیے گئے تھے۔ جن میں۔۔سال 2000ء کا مسئلہ، یا وائی ٹو کے پرابلم، ملینیم بگ، وائی ٹو کے بگ، وائی ٹو کے گلیچ یا محض وائی ٹو وغیرہ عام تھے۔ ایک اندازے کے مطابق دنیا بھر میں کروڑوں ڈالرز کا خرچہ کرکے مسئلے کو حل کرنے کی کوشش کی گٗئی۔ تاکہ کمپیوٹر پروگراموں میں تاریخ کے اکیسویں صدی کے ایام اور مہینے نظر آسکیں اور اور ان کے حساب کتاب میں ممکنہ خرابیوں پر قابو پایا جاسکے۔ بعد میں پتہ چلا کہ یہ در اصل کئی کوبول اور دیگر فرسودہ سافٹ ویئر کے ماہر انجینیروں کا پراپیگنڈہ تھا ۔ جن کا خیال تھا کہ وائی ٹو کے ایک بے حد سنگین مسئلہ ہے۔ مگر آگے چل کر یہ صرف ایک پروپگنڈا ثابت ہوا اور کوئی کمپیوٹر کریش نہیں ہوا۔ یہ بالکل انیس سو اناسی میں امریکی ادارے ناسا کا خلائی اسٹیشن سکائی لیب کے ملبے کے گرنے کے بارے میں سازشی مفروضے کی طرح تھا جو اس وقت کے خلاٗئی سائنسدانوں کے مطابق دنیا کے کسی بھی حصے میں گر کر تباہی مچا سکتا تھا۔ مگر وہ کئی روز تک دنیا میں پریشانی پیدا کرنے کے بعد آسٹریلیا کے قریب سمندر میں گرا۔ یہی حال ٹو وائی کے کا بھی تھا۔ کئی ماہ تک کی پریشانی کے بعد بالآخر اکتیس دسمبر انیس سو ننانوے کی رات کو بارہ بجے صدی کے ساتھ ساتھ اگلے ہزار سال کا آغاز ہوا۔مگر تمام کمپیوٹرز محفوظ رہے اور ڈیٹا بھی ضائع نہ ہوا۔ بقول غالب ۔۔تھی خبر گرم کہ غالب کے اڑیں گے پرزے۔۔دیکھنے ہم بھی گئے تھے پہ تماشا نہ ہوا۔

جاری ہے۔

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here