تحریر: محمد لقمان
بلوچستان کے سابق وزیر اعلی سردار اختر مینگل نے ایک بار کہا تھا کہ پاکستان کا میڈیا بلوچستان کے مسائل اجاگر کرنے کے لئے اتنا وقت دے دے جتنا کہ وہ بکرا منڈیوں کی کوریج کے لئے دیتا ہے تو کافی معاملات درست ہوسکتے ہیں۔ اس وقت اہل وطن نے یہ بات مذاق سمجھ کر ٹال دی تھی۔ لیکن یہ بات کافی حد تک درست ہے کہ میڈیا اور اہل دانش نے بلوچستان کو اس قابل نہیں سمجھا کہ ملک کے سب سے بڑے صوبے کے معاملات پر بات چیت ہو اور ارباب اختیار کے سامنے اس کی محرومیوں کو پیش کیا جائے۔ آنکھیں بند کرنے سے مسائل حل نہیں ہوتے۔ ابھی جمعے کے روز بلوچستان کے علاقے مستونگ میں خود کش حملے میں انتخابی کارنر میٹنگ میں موجود ڈیڑھ سو کے قریب افراد لقمہ اجل بن گئے۔ مگر ہمارے میڈیا کا رویہ بڑا تکلیف دہ رہا۔ زیادہ تر وقت نواز شریف کی لندن سے پاکستان واپسی اور ان کی گرفتاری تک محدود رہا۔ جو وقت بچ گیا وہ عمران خان اور دیگر سیاسی رہنماوں کے بیانات پر لگ گیا ۔ بڑی عجیب ہے کہ او آئی سی ، امریکہ اور برطانیہ نے بلوچستان سانحے کی مذمت فوری کی مگر ہمارے سیاسی رہنما ایک دوسرے کے پوائنٹ سکورنگ تو کرتے رہے۔ مگر منہ سے ایک لفظ بھی اس واقعہ کے بارے میں ادا نہیں کیا۔ تقریباً چوبیس گھنٹے کے بعد ہی مذمتی بیان آئے۔ یہی عالم میڈیا کا تھا ۔ گویا کہ ایک بڑے سانحے کی کوریج کے لئے کوئی وقت موجود نہیں تھا۔ پاکستانی الیکٹرونک میڈیا جس کی عمر اب سولہ سترہ سال ہوگئی ہے۔ ابھی بھی بچپنے کا شکار ہے۔ ایک فضول سی فوٹیج پر گھنٹوں بحث کرنے کو ہر کوئی تیار ہے۔ مگر بلوچستان میں لگی آگ کو بجھانے کے لئے کوئی تیار نہیں۔ باقی ملک میں سیاسی اور مذہبی اختلافات نظر آتے ہیں تو بلوچستان میں بدامنی کی چنگاری سلگھانے کے لئے ان سے کہیں زیادہ عوامل موجود ہیں۔ وقت آگیا ہے کہ میڈیا قوم کی رہنمائی کے لئے کردار ادا کرے۔ ورنہ جنگ کے بعد مارا گیا مکہ اپنے منہ پر ہی پڑتا ہے۔